نتائج تلاش

  1. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    مُنفرِد اِک حیثیت مجھ کو وَدِیعَت ہے خلؔش ! بس نہیں عادت سے کوئی میں جہاں میں عام وخاص شفیق خلؔش
  2. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    عید میں، خوشبُو وطن سے اُن حنائی ہاتھوں کی! میرے پاس اِ س دیس میں لائیں ہوائیں کِس طرح شفیق خلؔش
  3. طارق شاہ

    قطعات (تخت سنگھ)

    کونسا معرکہ، محتاجِ تگ و تاز نہیں کونسا عزم ! نئی جہد کا آغاز نہیں ذوقِ تخلیق کے اعجاز بھرے ہاتھ میں آج تیشہ فرہاد کا ہے، کُن کا حَسِیں ساز نہیں بہت ہی خوب
  4. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    باوجود اِس کے، کہ سب وعدے نہ کم تھے عہد سے عید کے مِلنے پہ دیکھو تو ستائیں کِس طرح شفیق خلؔش
  5. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    رشک ہے حیرانگی سے اپنی قسمت پر ، کہ لوگ ! چاند کے دیکھے پہ ہی ،عیدیں منائیں کِس طرح شفیق خلؔش
  6. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    ہم سے مایُوس نہ ہو، اے شبِ دَوراں! کہ ابھی دل میں کچُھ درد چمکتے ہیں، اُجالوں کی طرح اور کیا اِس سے زیادہ، بھلا نرمی برتُوں دِل کے زخموں کو چُھوا ہے تِرے گالوں کی طرح مجھ سے نظریں تو مِلاؤ، کہ ہزاروں چہرے ! میری آنکھوں میں چمکتے ہیں سوالوں کی طرح جاں نثار اختؔر
  7. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    اِس شورِ تلاطُم میں کوئی کِس کو پُکارے ؟ کانوں میں یہاں، اپنی صدا تک نہیں آتی بہتر ہے پَلٹ جاؤ سِیہ خانۂ غم سے اِس سرد گُپھا میں تو ہَوا تک نہیں آتی شکیؔب جلالی
  8. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    ثبوُت یہ ہے محبّت کی سادہ لَوحی کا ! جب اُس نے وعدہ کِیا، ہم نے اعتبار کِیا مِرے خُدا نے، مِرے سب گُناہ بخش دِیے کسی کا، رات کو یُوں میں نے اِنتظار کِیا جوؔش ملیح آبادی
  9. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    جیسا ،جتنا، رشتہ تھا! اُس کو رُسوا مت کرنا ہم بھی ایسا نہیں کہیں گے، تم بھی ایسا مت کرنا خواب دیکھو اور پھر زخموں کی دِلداری کرو افتخار عارف! نئی منزِل کی تیاری کرو افتخار عارف
  10. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    گیت جِتنے لِکھے اُن کے لیے، اے موج صبا! دل یہی چاہا کہ تُو اُن کو سُنا آئی ہو تیرے تحفے تو سب اچّھے ہیں، مگر موجِ بہار! اب کے میرے لیے خوشبوئے حِنا آئی ہو پروین شاکر
  11. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    وہ میرے ضبط کا اندازہ کرنے آیا تھا میں ہنس کے زخم نہ کھاتا، تو اور کیا کرتا ؟ اگر زبان نہ کَٹتی، تو شہر میں مُحسنؔ ! مَیں پتّھروں کو بھی اِک روز ہمنوا کرتا مُحسؔن نقوی
  12. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    دامنِ دل پہ نہیں بارشِ الہام ابھی عشق نا پُختہ ابھی، جذبِ دروں خام ابھی خود جھجکتا ہُوں کہ دعوائے جنُوں کیا کیجے کچھ گوارا بھی ہے یہ قید در و بام ابھی اسرار الحق مجاؔز لکھنوی
  13. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    فُغان و آہ کی لذّت جو دِل ہِلے تو مِلے نشانِ نِکہَتِ گُل، جب کلی کِھلے تو مِلے اکبؔر الٰہ آبادی
  14. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    شامِ غم کچھ اُس نگاہِ ناز کی باتیں کرو ! بےخودی بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو نام بھی لینا ہے جس کا اِک جہانِ رنگ و بُو دوستو! اُس نَو بہارِ ناز کی باتیں کرو ہر رگِ دِل وجد میں آتی رہے، دُکھتی رہے ! یونہی اُس کے جا و بے جا ناز کی باتیں کرو جو عدَم کی جان ہے، جو ہے پیامِ زندگی ! اُس سُکوتِ...
  15. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    آزمائش میں کہاں عِشق بھی پُورا اُترا حُسن کے آگے تو، تقدِیر کا لِکھّا اُترا پروین شاکر
  16. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    دُھوپ ڈھلنے لگی، دِیوار سے سایا اُترا سطح ہموار ہُوئی، پیار کا دریا اُترا یاد سے نام مِٹا، ذہن سے چہرہ اُترا چند لمحوں میں نظر سے تِری کیا کیا اُترا پروین شاکر
  17. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    یہ دِل ہے کہ جلتے سینے میں، اِک درد کا پھوڑا الہڑ سا ! ناگپت رہے، نا پُھوٹ بہے، کوئی مرہَم ہو، کوئی نشتر ہو وہ راتیں، چاند کے ساتھ گئیں، وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں ! اب سُکھ کے سپنے کیا دیکھیں، جب دُکھ کا سُورج سر پر ہو ابنِ انشؔا
  18. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    جو عُمر تھی، وہ گوشہ نشینی میں کٹ گئی اب کاروبار جنسِ ہُنر، کیا کرُوں گا میں جو دِن گُزر گئے ہیں، گُزارے ہیں کِس طرح ! جو عُمر بچ رہی ہے بَسر کیا کرُوں گا میں سیف الدین سیفؔ
  19. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    سب ہیں اسِیرِ راہگزر، کیا کرُوں گا میں اِن قافِلوں کے ساتھ سفر کیا کرُوں گا میں مِلتا نہیں مِزاج مِرا، اہلِ بزم سے ! آ تو گیا ہُوں سیفؔ! مگر کیا کرُوں گا میں سیف الدین سیفؔ
  20. طارق شاہ

    شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

    عتابِ اہلِ جہاں سب بُھُلا دِئے، لیکن وہ زخم یاد ہیں اب تک، جو غائبانہ لگے دِکھاؤں داغِ مُحبّت جو نا گوار نہ ہو سُناؤں قصّۂ فُرقت، اگر بُرا نہ لگے ناصؔر کاظمی
Top