ہم بھی شب گیسو کے اُجالوں میں رہے ہیں
کیا کیجیے دِن پھیر کے لائے نہیں جاتے
اے ہوش! غمِ دِل کی چراغوں کی ہے کیا بات
اک بار جلا دو ، تو بُھجائے نہیں جاتے
ہوش ترمذی
(سیّد سبط ِحَسن)
شرما کے اِک نے اوڑھی، منہ پر ہنسی کے مارے
رنگین اوڑھنی کے بِھیگے ہُوئے کِنارے
شرم و حَیا کی سُرخی چہرے پہ چھا رہی ہے
شام اُس کو دیکھتی ہے اور مُسکرا رہی ہے
ابوالاثرحفیظ جالندھری
نظم
سخت گیر آقا
آج بستر ہی میں ہُوں
کردِیا ہے آج
میرے مضمحل اعضا نے اِظہارِ بغاوت برملا
واقعی معلوم ہوتا ہے تھکا ہارا ہُوا
اور میں
ایک سخت گیر آقا ۔۔۔۔(زمانے کا غلام)
کِس قدر مجبُور ہُوں
پیٹ پُوجا کے لیے
دو قدم بھی ، اُٹھ کے جا سکتا نہیں
میرے چاکر پاؤں شل ہیں
جُھک گیا ہُوں اِن کمینوں کی رضا کے...
بس ایک موتی سی چَھب دِکھا کر، بس ایک میٹھی سی دُھن سنا کر
ستارۂ شام بن کے آیا ، برنگِ خوابِ سَحر گیا وہ
خوشی کی رُت ہو، کہ غم کا موسم، نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بُوئے گُل تھا کہ نغمۂ جاں، مِرے تو دِل میں اُتر گیا وہ
ناصؔر کاظمی
حفیظ تائب کے نعت کی بحر مشترکہ(وہی) ہے،مگر زمین جُداگانہ ہے
اِس بحر میں ڈاکٹر بشیر بدر کی بیسیوں رَواں ا ور مترنّم غزلیں ہیں، شاید اِس زمین میں بھی ہو :)
غزل
کر کے مد ہو ش ہمَیں نشّۂ ہم د و شی میں
عہد و پیما ن کئے، غیر سے سر گو شی میں
ا ِس سے آ گے، جو کو ئی با ت تِر ے با ب میں کی
شِر ک ہو جا ئے گا، پھر ہم سے سُخن کو شی میں
ز خمۂ فکر سے چِھڑ نے لگے ا حسا س کے تا ر
نغمے کیا کیا نہ سُنے، عر صۂ خا مو شی میں
ا پنے د ا من کے گنِو د ا غ، یہ جب ہم...