بہت شکریہ بھائی شکیل
آنسو بہا اور خوں بہا والی بات سے متفق سمجھتا ہوں خود کو، مگر فی الحال تعقید کہاں ہے مصرع میں یہ سمجھ میں نہیں آ سکا!
غزل آپ کو پسند آئی بہت اچھا لگا۔ جزاک اللہ خیر
غزل
محبت کا کسی کی آج کل دعوی بھی کیا کرنا
کہ اپنے تک ہی رکھا جائے دنیا میں بھلا کرنا
اب اپنی کہنے والے ہیں کہ دن وہ جا چکے کب کے
کہ خاموشی سے بیٹھے آپ کی باتیں سنا کرنا
فضائیں کھول دی ہیں میری خاطر آسماں نے سب
یہ کہنا ہے کہ جب چاہے جہاں چاہے اڑا کرنا
کہاں ہے وہ کہ ہم سے ہو نہ پائے گا...
وہاں سعودیہ اور ترکی میں تو اب بھی اوردو ہی کہا جاتا ہو گا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم لوگوں کے اردو کہنے سے ان لوگوں نے بھی ہماری زبان کو اردو ہی کہنا شروع کر دیا ہے؟
ایک مزید غزل ہو گئی ہے، ملاحظہ فرمائیں
اک بار دیکھ کر جو وہ دیوانہ کر گئے
ہم بار بار ان کے لیے ان کے گھر گئے
اب تک سیمٹ پائے نہیں اپنے آپ کو
اس کی تلاش میں تھے ہم ایسا بکھر گئے
بہتے تھے جن میں آنکھ سے دریا ہزار بار
حیرت میں مبتلا ہیں کہ دن وہ کدھر گئے
شاید نہ کہہ سکیں گے یہ مرنے سے...
السلام علیکم
ایک غزل پیش کر رہا ہوں، آخری شعر میں ایک تجربہ کیا ہے ذو قافیتین کی صنعت کو نبھانے کی کوشش میں۔ امید ہے کہ احباب اس کے بارے میں رائے ضرور دیں گے
شکریہ
کھلا ہے مجھ پہ کہ دنیا میں کیا کیا جائے
جو اس کے ہاتھ سے دامن چھڑا لیا جائے
مزا ہی کیا ہے بھٹکنے کا اس کی راہ میں جب
مسافروں...
ایسی کوئی بات نہیں بھائی ارشد
کل مجھے احساس ہوا کہ یہ میرے بس کا کام نہیں ہے، اس لیے معذرت کی۔ آپ خود دیکھیں کہ کیا میں استاد ہوں؟ کیا میری کوئی کتاب شائع ہوئی ہے؟ میں تو خود مبتدی ہوں بھائی
بابا ان شاء اللہ دیکھ لیں گے، کچھ انتظار کیجیے
معذرت چاہتا ہوں ارشد بھائی
آپ بابا کو ٹیگ کر لیا کیجیے، میں فی الحال اس قابل نہیں سمجھتا خود کو، پہلے تو مجھے بھی کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا رہتا تھا اس لیے مشورے دے دیا کرتا تھا۔ مگر اب سمجھتا ہوں کہ یہ استاد کا ہی کام ہے
زبان مزے لوٹ رہی ہے آج کل، شاید امیر مینائی کا شعر ہے
کرے جس قدر شکر نعمت وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے زباں کیسے کیسے
گوگل پر سرچ کیا تو حیدر علی آتش کی غزل کا شعر ہے یہ معلوم ہوا