تیرا خیال آتے ہی نا جانے کیسے
صوفی بن جاتا ہوں
ہاتھ میں ریشمی کپڑے کا ٹکڑا تھامے
دوسری جانب چوڑیوں سے مخمور حنائی ہاتھ کو دیکھتا ہوں
آنکھ بتقاضائے حیا اٹھ نہیں پاتی
اورمذہبِ عشق میں بیعت ہوجاتا ہوں
پنجابی دھن پر ترکی صوفیوں کے ساتھ لمبا چولا پہنے
کتنے ہی بھگتوں، جوگیوں، صوفیوں کے سنگ گھومتا...