غزل
مسکنِ ماہ و سال چھوڑ گیا
دِل کو اُس کا خیال چھوڑ گیا
تازہ دم جسم و جاں تھے فُرقت میں
وصل، اُس کا نِڈھال چھوڑ گیا
عہدِ ماضی جو تھا عجب پُرحال !
ایک وِیران حال چھوڑ گیا
ژالہ باری کے مرحَلوں کا سفر
قافلے، پائمال چھوڑ گیا
دِل کو اب یہ بھی یاد ہو، کہ نہ ہو !
کون تھا، کیا ملال چھوڑ گیا...