غزلِ
دُکھ کی دو اِک برساتوں سے، کب یہ دِلِ پایاب بھرا
وہ تو کوئی دریا لے آیا ، دریا بھی سیلاب بھرا
سوچا تھا! غم کو غم کاٹے، زہر کا زہر بنے تریاق
اب دِل آبلہ آبلہ ہے، اور شیشۂ جاں زہراب بھرا
تم آ جاتے، تو اُس رُت کی عُمر بھی لمبی ہو جاتی
ابھی تھا دیواروں پر سبزہ، ابھی تو صحن گلاب بھرا
جانے...
غزل
حرم کی راہ کو، نُقصان بُت خانے سے کیا ہو گا
خیالاتِ بشر میں، اِنقلاب آنے سے کیا ہو گا
کسے سمجھا رہے ہیں آپ، سمجھانے سے کیا ہو گا
بجز صحرا نوَردی ، اور دِیوانے سے کیا ہو گا
ارے کافر ! سمجھ لے ، اِنقلاب آنے سے کیا ہو گا
بنا کعبہ سے بُت خانہ، تو بُت خانے سے کیا ہو گا
نمازی سُوئے مسجد جا...