غزل
زندگی خاک نہ تھی خاک اُڑا تے گُزری
تجھ سے کیا کہتے تِرے پاس جو آتے گُزری
دن جو گُذرا ، تو کسی یاد کی رَو میں گُذرا
شام آئی، تو کوئی خواب دِکھا تے گُزری
اچھے وقتوں کی تمنّا میں رہی عُمرِ رَواں
وقت ایساتھا کہ بس ناز اُٹھاتے گُزری
زندگی جس کے مُقدّر میں ہو خوشیاں تیری !
اُس کو آتا ہے...
مِٹی مِٹی سی اُمیدیں، تھکے تھکے سے خیال
بجھے بجھے سے نگِاہوں میں غم کے افسانے
اُمیدِ پُرسِشِ غم کِس سے کیجے، ناؔصر
جو اپنے دِل پہ گُزرتی ہے کوئی کیا جانے
ناؔصر کاظمی
یاں لب پہ لاکھ لاکھ سُخن اِضطراب میں
واں ایک خامشی تِری، سب کے جواب میں
خط دیکھ کر وہ آئے بہت پیچ و تاب میں
کیا جانے میں نے لکھ دِیا کیا اِضطراب میں
شیخ ابراہیم ذوقؔ