غزل
شیخ آخر یہ صُراحی ہے، کوئی خُم تو نہیں
اور بھی، بیٹھے ہیں محِفل میں تمہی تم تو نہیں
ناخُدا ہوش میں آ، ہوش تِرے گُم تو نہیں
یہ تو ساحِل کے ہیں آثار ، تلاطُم تو نہیں
ناز و انداز و ادا ، ہونٹوں پہ ہلکی سی ہنسی !
تیری تصویر میں سب کُچھ ہے تکلّم تو نہیں
دیکھ، انجام محبّت کا بُرا ہوتا ہے...
غزل
پیشِ نظر ہوں حُسن کی رعنائیاں وہی
دِل کی طلب ہے حشر کی سامانیاں وہی
اِک عمر ہوگئی ہے اگرچہ وصال کو
نظروں میں ہیں رَچی تِری رعانائیاں وہی
میں کب کا بجھ چُکا ہوں مجھے یاد بھی نہیں
دِل میں ہے کیوں رہیں تِری تابانیاں وہی
بیٹھا تِرے خیال سے ہُوں انجمن کئے
اے کاش پھر...