غزل
پرویز ساحِر
اِس کارِ عِشق میں نہیں کوئی ہوَس مُجھے
میری متاعِ آتِشِ سُوزاں ہے بَس مُجھے
مَیں بورِیا نشِیں سہی، لیکِن بہ فیضِ عِشق
حاصِل ہے مِہْر و ماہ پَہ بھی دَسترَس مُجھے
چشمِ زدَن میں جَست بھرُوں گا میں تا اُفق
کچھ کم نہیں ہے مُہلتِ یک دو نفَس مُجھے
میرے لِیے ہے حَلقۂ صاحِب...
غزل
پرویز ساحِر
اک بوریائے فُقر پہ جائے نشِیں ہُوں میں
کب سے مکانِ ذات کے اندر مکِیں ہُوں میں
ہُوں گام زن میں جادۂ راہِ سلوُک پر
مجھ کو ہے یہ گُمان، کہ اہلِ یقِیں ہُوں میں
اِس کائناتِ عِشق میں مِثلِ فقیرِ حُسن
اِک ذرّۂ حقِیر سے احقر ترِیں ہُوں میں
یہ اور بات مجھ پہ ہے ہَستی کا سب...
غزل
ہر گھڑی اِنقلاب میں گُزری
زندگی کِس عذاب میں گُزری
شوق تھا مانَعِ تجلّیِ دوست !
اُن کی شوخی حِجاب میں گُزری
کَرَمِ بے حِساب چاہا تھا
سِتَمِ بے حِساب میں گُزری
ورنہ دُشوار تھا سُکونِ حیات
خیر سے اِضطراب میں گُزری
رازِ ہستی کی جُستجُو میں رہے
رات تعبیرِخواب میں گُزری
کُچھ کٹی ہمّتِ...
غزل
رکھّا ہے دل میں تجھ کو چُپھے راز کی طرح
دھڑکن بتا نہ دے کہ ہُوئی ساز کی طرح
تیرے خیال سے ہے بہار اب خِزاں کی رُت
خاموشی بھی چہک تِری آواز کی طرح
یوں کِھلکِھلانا اُس کا ہے اِس بات پر ثبوت
باقی نہ سرد مہری ہے آغاز کی طرح
پُھولے نہیں سماتا ہے قربت سے تیری دِل
پہلو میں توُ، اِسے...
غزل
جانتا ہُوں کہ مِرا دل مِرے پہلو میں نہیں
پھر کہاں ہے جو تِرے حلقۂ گیسو میں نہیں
ایک تم ہو، تمھارے ہیں پرائے دِل بھی
ایک میں ہُوں، کہ مِرا دِل مِرے قابُو میں نہیں
دُور صیّاد، چمن پاس، قفس سے باہر !
ہائے وہ طاقتِ پرواز، کہ بازو میں نہیں
دیکھتے ہیں تمھیں جاتے ہُوئے اور جِیتے ہیں
تم بھی...
غزل
عِشق میں جینے کے بھی لالے پڑے
ہائے کِس بیدرد کے پالے پڑے
وادئ وحشت میں جب رکھّا قدم
آ کے میرے پاؤں پر چھالے پڑے
دِل چلا جب کوُچۂ گیسو کی سمت
کوس کیا کیا راہ میں کالے پڑے
دُور تھا، زندا تھے کیا دشتِ جنوُں
چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑے
کِس نگر نے کردِیا عالم کو مست
ہر جگہ لاکھوں ہیں...