ہو روئے حسیں کا جو پرستار کہاں جائے
اٹھ کر تری محفل سے اے یار کہاں جائے
تسکین دلِ زار کا سرمایہ تو ہے تو!
اب لے کے کوئی اپنا دلِ زار کہاں جائے
زاہد کے لیے باز ہے در بزمِ ہوس کا
لیکن یہ محبت کا گنہ گار کہاں جائے
جو دید کا مشتاق ہو پہنچے وہ سرِ بزم
ہو جس کو محبت تری درکار کہاں جائے
سنتا ہوں...