اصلِ شہود و شاہدِ مشہود ایک ہے۔
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں۔
غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغولِ حقہوں بندگی بوتراب میں
یا
بہت سہی غم گیتی شراب کم...
بہت خوب جناب الف عین صاحب
پر حضرتِ اقبال کا کیا کریں ۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے۔
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا