عزمؔ خود کو نڈھال مت کرنا
ٹوٹ کر بھی ملال مت کرنا
ایک جھوٹی نظیر بن جاؤ
کوئی ایسا کمال مت کرنا
خار بن کر جو دل میں چبھتے ہوں
ایسے رشتے بحال مت کرنا
عشق کرنا ہے تو کرو لیکن
اپنا جینا محال مت کرنا
جس کے بنتے ہو اس کے بن جاؤ
تم ہمارا خیال مت کرنا
٭٭٭
عزمؔ شاکری
گھر رہ کر یہ جانا ہے
گھر بھی مسافر خانہ ہے
توبہ ٹوٹ بھی سکتی ہے
رستے میں میخانہ ہے
غم سے پیار کرو لوگو
غم انمول خزانہ ہے
کل کا وعدہ مت کیجے
کل تک تو مر جانا ہے
بھیس بدل کر پی لو یار
دنیا پاگل خانہ ہے
٭٭٭
عزمؔ شاکری
شاد تھے صیاد نے ناشاد ہم کو کر دیا
قید راس آئی تو پھر آزاد ہم کو کر دیا
روز نا کردہ گناہوں کی سزا سہتے ہیں ہم
وقت نے کیسا ستم ایجاد ہم کو کر دیا
ہم تھے آئینہ ہماری بدنصیبی تھی کہ جو
پتھروں کے شہر میں آباد ہم کو کر دیا
اور کیا اس سے زیادہ آئے گا فن پر زوال
وقت نے کتنا بڑا استاد ہم کو کر دیا...
جو پھولوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں
وہ خوشبو کا اک حصہ ہو جاتے ہیں
رونے والو! ان کو دامن میں رکھ لو
ورنہ آنسو آوارہ ہو جاتے ہیں
دولت کا نشّہ بھی کیسا نشّہ ہے
گونگے بہرے لوگ خدا ہو جاتے ہیں
عشق میں اپنی جان لٹانے والے لوگ
مر جاتے ہیں، پھر زندہ ہو جاتے ہیں
ایسے بھی ہوتے ہیں صحرا جیسے لوگ
جب روتے...
اکمل بھائی بہت عرصہ سے مصروفیات کی وجہ سے جن چیزوں پر فوکس کچھ کم ہوا ہے، ان میں سے اصلاحِ سخن کا زمرہ بھی ہے۔ اب استاد تو ہوں نہیں کہ سرسری طور پر دیکھ کر ہی مسائل کی نشاندہی کر سکوں، وقت نکالنا پڑتا ہے۔ اس لیے قاصر رہا آپ کی کاوش دیکھنے سے۔ :)
پہلا سا مرے حال پہ اکرام نہیں ہے
یعنی وہ مری صبح نہیں شام نہیں ہے
رسوا ہے وہی جو نہیں رسوائے محبت
جو عشق میں ناکام ہے ناکام نہیں ہے
اے ذوقِ جنوں اور بڑھے جوش جنوں کا
دامن ہے مرا جامۂ احرام نہیں ہے
ممکن نہیں ابہام نہ ہو عرض و بیاں میں
لیکن نگہِ شوق میں ابہام نہیں ہے
جب دیکھو عزیزؔ اس کے ہی...
یہ طنزیہ مضمون محترم نعیم صدیقی کی قیامِ پاکستان سے قبل شائع ہونے والی کتاب ذہنی زلزلے سے لیا گیا ہے۔
صحافت کا مختصر جعرافیہ
حدودِ اربعہ
فنِ صحافت دنیائے خیال کا ایک ایسا جزیرہ نما ہے جسے دو طرف سے دریائے خریداران اور ایک طرف سے ایجنسیوں کے سمندر نے گھیر رکھا ہے۔ اس کی موجیں ساحل کو کٹا پھٹا...