غزل
(میر مہدی مجروح)
قتل کرتا ہے تو کر، خوف کسی کا کیا ہے
سر یہ موجود ہے، ہر دم کا تقاضا کیا ہے
نزع کے وقت یہ آنکھوں کا اشارا کیا ہے
سامنے میرے دھرا ساغرِ صہبا کیا ہے
اپنا یوں دُور سے آ آ کے دکھانا جوبن
اور پھر پوچھنا مجھ سے کہ تمنّا کیا ہے
چشمِ پُر آب مری دیکھ کے ہنس کر بولے
یہ تو اک نوح کا...
غزل
(میر مہدی مجروح)
وہ کہاں جلوہء جاں بخش بتانِ دہلی
کیونکہ جنّت پہ کیا جائے گمانِ دہلی
ان کا بےوجہ نہیں ٹوٹ کے ہونا برباد
ڈھونڈے ہے اپنے مکینوں کو مکانِ دہلی
جس کے جھونکے سے صبا طبلہ عطار بنے
ہے وہ بادِ سحر عطر فشانِ دہلی
مہر زر خاک کو کرتا ہے یہ سچ ہے لیکن
اس سے کچھ بڑھ کے ہیں صاحب نظرانِ...