ہے مضطرب سی تمنا کہ ایک نعت کہوں
میں اپنے زخموں کے گلشن سے تازہ پھول چنوں
پھر ان پہ شبنمِ اشکِ سحر گہی چھڑکوں
پھر ان سے شعر کی لڑیاں پرو کے نذر کروں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں
کھڑا ہوں صدیوں کی دوری پہ خستہ و حیراں
یہ میرا ٹوٹا ہوا دل یہ دیدۂ گریاں
یہ مُنفعِل سے ارادے یہ مضمحل ایماں...