رات دن محبوس اپنے ظاہری پیکر میں ہوں
شعلۂ مضطر ہوں میں لیکن ابھی پتھر میں ہوں
اپنی سوچوں سے نکلنا بھی مجھے دشوار ہے
دیکھ میں کس بے کسی کے گنبدِ بے در میں ہوں
دیکھتے ہیں سب مگر کوئی مجھے پڑھتا نہیں
گزرے وقتوں کی عبارت ہوں عجائب گھر میں ہوں
جرم کرتا ہے کوئی اور شرم آتی ہے مجھے
یہ سزا...