غزلِ
شفیق خلش
آئے ذرا نہ اُٹھ کے وہ بیمار کی طرف
بیٹھے رہے تھے منہ کئے دیوار کی طرف
کھاتے نہ کیوں شکست بَھلا ہم خوشی کے ساتھ
جب فیصلہ تھا اُن کا بھی اغیار کی طرف
اِک عُمر دِل میں وصل کی اُمّید ہم لئے
پیغام بھیجتے رہے سرکار کی طرف
فُرقت میں اور ٹُوٹ کے اُن کا رہا خیال
جاتا کہاں سے ذہن...
غزلِ
امیر مینائی
گھر گھر تجلّیاں ہیں طلبگار بھی تو ہو
موسیٰ سا کوئی طالبِ دیدار بھی تو ہو
اے تیغِ یار! کیا کوئی قائل ہو برق کا
تیری سی اُس میں تیزئ رفتار بھی تو ہو
دِل درد ناک چاہیے لاکھوں میں خُوب رُو
عیسیٰ ہیں سینکڑوں کوئی بیمار بھی تو ہو
چھاتی سے میں لگائے رہُوں کیوں نہ داغ کو
اے...
غزلِ
ثاقب لکھنوی
بَلا ہے عِشق، لیکن ہر بَشر قابل نہیں ہوتا
بہت پہلوُ ہیں ایسے بھی کہ جن میں دِل نہیں ہوتا
نشانِ بے نشانی مِٹ نہیں سکتا قیامت تک
یہ نقشِ حق جَفائے دہر سے باطل نہیں ہوتا
جہاں میں نااُمیدی کے سِوا اُمّید کیا معنی
سبھی کہتے ہیں، لیکن دِل مِرا قائل نہیں ہوتا
تڑپنا کِس کا...
غزلِ
حفیظ جالندھری
مِل جائے مے، تو سجدۂ شُکرانہ چاہیے
پیتے ہی ایک لغزشِ مستانہ چاہیے
ہاں احترامِ کعبہ و بُتخانہ چاہیے
مذہب کی پُوچھیے تو جُداگانہ چاہیے
رِندانِ مے پَرست سِیہ مَست ہی سہی
اے شیخ گفتگوُ تو شریفانہ چاہیے
دِیوانگی ہے، عقل نہیں ہے کہ خام ہو
دِیوانہ ہر لحاظ سے، دِیوانہ...
غزلِ
میر تقی میر
ہے تہِ دِل بُتوں کا کیا معلوُم
نِکلے پردے سے کیا خُدا معلوم
یہی جانا، کہ کُچھ نہ جانا ہائے
سو بھی، اِک عمر میں ہُوا معلوم
عِلم سب کو ہے یہ کہ، سب تو ہے
پھر ہے الله کیسا نامعلوم
گرچہ توُ ہی ہے سب جگہ، لیکن
ہم کو تیری نہیں ہے جا معلوم
عِشق، جانا تھا مار رکھّے گا...
غزلِ
فِراق گورکھپُوری
آج بھی قافلۂ عِشق رَواں ہے کہ جو تھا
وہی مِیل اور وہی سنگِ نِشاں ہے کہ جو تھا
آج بھی عِشق لُٹاتا دل و جاں ہے کہ جو تھا
آج بھی حُسن وہی جِنسِ گراں ہے کہ جو تھا
منزلیں گرد کے مانند اُڑی جاتی ہیں
وہی اندازِ جہانِ گُزراں ہے کہ جو تھا
منزلیں عِشق کی تا حدِ نظر سُونی ہیں...
میر تقی میر
خُوبی یہی نہیں ہے کہ انداز و ناز ہو
معشُوق کا ہے حُسن، اگر دِل نواز ہو
سجدہ کا کیا مُضائقہ محراب تیغ میں
پر یہ تو ہو، کہ نعش پہ میری نماز ہو
اِک دَم تو ہم میں، تیغ کو توُ بے دریغ کھینچ
تا، عشق میں ہوس میں تنک اِمتیاز ہو
نزدِیک سوزِ سِینہ کے رکھ اپنے قلب کو
وہ دِل ہی...
غزلِ
شفیق خلش
کب اُن کو اپنا عمَل اِک بھی ظالمانہ لگے
کہوں جو حق کی اگر میں، تو باغیانہ لگے
فضائے عِشق و محبّت جسے مِلا نہ کبھی
یہ دِل اِک ایسے پرندے کا آشیانہ لگے
مطیع بن کے ہمیشہ رہے تھے، جس کا یہاں
عذاب ہم پہ سب اُس کا ہی شاخسانہ لگے
کہُوں یہ کیسے کہ اُن کے بغیر رہ نہ سَکوُں
اُنھیں تو...
غزلِ
مرزا اسداللہ خاں غالب
نُکتہ چِیں ہے ، غمِ دِل، اُس کو سُنائے نہ بنے
کیا بنے بات ، جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بُلاتا تو ہُوں اُس کو ، مگر اے جذبۂ دِل
اُس پہ بَن جائے کُچھ ایسی، کہ بِن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے ، کہیں چھوڑ نہ دے ، بُھول نہ جائے
کاش! یُوں بھی ہو کہ، بِن میرے ستائے نہ...
غزلِ
فانی بدایونی
ہوش ہستی سے تو بیگانہ بنایا ہوتا
کاش تُو نے مجھے دِیوانہ بنایا ہوتا
دِل میں اِک شمْع سی جلتی نظر آتی ہے مجھے
آ کے اِس شمْع کو پروانہ بنایا ہوتا
تیرے سجدوں میں نہیں شانِ محبّت زاہد
سر کو خاکِ دَرِ جانانہ بنایا ہوتا
دِل تِری یاد میں آباد ہے اب تک، ورنہ
غم نے کب کا...