بیمار ہیں تو اب دمِ عیسٰی کہاں سے آئے
اُس دِل میں، دردِ شوقِ تمنّا کہاں سے آئے
بے کار شرحِ لفظ و معانی سے فائدہ
جب تُو نہیں، تو شہر میں تُجھ سا کہاں سے آئے
ہر چشم سنگِ خذب و عداوت سے سُرخ ہے
اب آدمی کو زندگی کرنا کہاں سے آئے
وحشت ہَوس کی، چاٹ گئی خاکِ جسم کو
بے در گھروں میں شاکی کا سایا...
اب پُھول چُنیں گے کیا چمن سے
تو مجھ سے خفا، میں اپنے من سے
وہ وقت، کہ پہلی بار دِل نے
دیکھا تھا تجھے بڑی لگن سے
جب چاند کی اشرفی گِری تھی
اِک رات کی طشتری میں چَھن سے
چہرے پہ مِرے جو روشنی تھی
تھی تیری نِگاہ کی کِرن سے
خوشبو مجھے آرہی تھی تیری
اپنے ہی، لِباس اور تن سے
رہتے تھے ہم ایک...
غزلِ
فِراق گورکھپُوری
لُطف نہیں کرَم نہیں
جور نہیں سِتم نہیں
اب نہیں رُوئے مہ چَکاں
گیسُوئے خم بہ خم نہیں
برسرِ عالمِ وجُود
کون سی شے عدم نہیں
یُوں ہی نِکل گئی اِک آہ
رنج نہیں، الَم نہیں
قائلِ حُسنِ دِلفریب
آپ نہیں کہ ہم نہیں
میں تِرا موردِ عتاب
اِس سے بڑا کرَم نہیں...
سُرُود
موت اپنی، نہ عمل اپنا، نہ جِینا اپنا
کھو گیا شورشِ گِیتی میں قرِینہ اپنا
ناخُدا دُور، ہَوا تیز ، قرِیں کامِ نہنگ
وقت ہے پھینک دے لہروں میں سفِینہ اپنا
عرصۂ دہر کے ہنگامے تہِ خواب سہی
گرم رکھ آتشِ پیکار سے سِینہ اپنا
ساقِیا! رنج نہ کر جاگ اُٹھے گی محفِل
اور کچھ دیر اُٹھا رکھتے ہیں...
غزلِ
شفیق خلش
چُنے مجھے ہی ہمیشہ جہان بھر سے آگ
نہ چھوڑے جان بھی میری اگر مگر سے آگ
گو پُر ہے عِشق و محبّت کی اِک اثر سے آگ
لگے نہ سِینے میں اُس کے جہاں کی ڈر سے آگ
اب اور لوگوں کا کیا ذکر جب حقیقت میں
لگی نصِیب جَلے کو خود اپنے گھر سے آگ
نجانے کیا شبِ فرقت میں گُل کِھلاتی ہے
لگی یہ...
غزلِ
شام تک صُبْح کی نظروں سے اُتر جاتے ہیں
اِتنے سمجھوتوں پہ جِیتے ہیں کہ مرجاتے ہیں
ہم تو بے نام اِرادوں کے مُسافر ٹھہرے
کچھ پتا ہو تو بتائیں کہ کِدھر جاتے ہیں
گھر کی گِرتی ہُوئی دِیوار ہے ہم سے اچھّی
راستہ چلتے ہُوئے لوگ ٹھہر جاتے ہیں
اِک جُدائی کا وہ لمحہ، کہ جو مرتا ہی نہیں...
غزلِ
شفیق خلش
رحم و کرم پہ یاد کی ٹھہری قضا ہے آج
اِک کیفیت خیال سے طاری جُدا ہے آج
مانوس جس سے میں نہیں ایسی فضا ہے آج
کانوں میں پڑ رہی مِرے سب کی دُعا ہے آج
ہر درد و غم سے ہجر کا صدمہ جُڑا ہے آج
پیکِ اجَل لے جان، کہ مجھ پر سَوا ہے آج
نو خیزئ شباب سے وابستہ جو رہا
محکم نہ ہو یقین کہ،...