غزلِ
ناصر کاظمی
خموشی اُنگلیاں چٹکا رہی ہے
تِری آواز اب تک آ رہی ہے
دلِ وحشی لیے جاتا ہے، لیکن
ہَوا زنجیر سی پہنا رہی ہے
تِرے شہرِ طرب کی رونقوں میں
طبیعت اور بھی گھبرا رہی ہے
کرم اے صرصرِ آلامِ دَوراں
دِلوں کی آگ بُجھتی جا رہی ہے
کڑے کوسوں کے سنّاٹے میں لیکن
تِری آواز اب تک آ رہی ہے...
غزلِ
اب اُس کی یاد ستانے کو بار بار آئے
وہ زندگی جو تِرے شہر میں گُزار آئے
تِری لگن نے زمانے کی خاک چَھنوائی
تِری طلب میں، تمام آرزوئیں ہار آئے
یہ بے بسی بھی نہیں لُطف اِختیار سے کم
خُدا کرے نہ کبھی دِل پہ اِختیار آئے
قدم قدم پہ گُلِستاں کِھلے تھے رستے میں
عجیب لوگ ہیں ہم بھی، کہ...
غزلِ
خبر مِلی ہے غمِ گردشِ جہاں سے مُجھے
کہ دیکھتا ہے کوئی چشمِ مہْرباں سے مُجھے
تِرا خیال تھا، تیری نظر کے ساتھ گیا
زمانہ ڈُھونڈ کے لائے گا اب کہاں سے مُجھے
کہیں یہ تم تو نہیں، میری آرزو تو نہیں
بُلا رہا ہے کوئی بامِ کہکشاں سے مُجھے
شجر کہاں تھے صلیبیں گڑِی تھیں گام بہ گام
رہِ طلب...
غزلِ
سحر انصاری
کسی بھی زخْم کا، دِل پر اثر نہ تھا کوئی
یہ بات جب کی ہے، جب چارہ گر نہ تھا کوئی
کسی سے رنگِ اُفق کی ہی بات کرلیتے
اب اِس قدر بھی یہاں مُعتبر نہ تھا کوئی
بنائے جاؤں کسی اور کے بھی نقشِ قدم
یہ کیوں کہوُں کہ مِرا ہمسفر نہ تھا کوئی
گُزر گئے تِرے کُوچے سے اجنبی کی...
غزلِ
شفیق خلش
ذرا نہ ڈھلنے پہ راضی وہ تیرے فرق کی رات
جو ایک رات بھی ہو کر تھی بے حساب سی رات
تمھارے ہجر میں ٹھہری تھی مجھ پہ جیسی رات
کسی نے دہر میں دیکھی نہ ہو گی ویسی رات
عذاب اِک ایسا، نہ وعدے پہ تیرا آنا تھا
جِئے مَرے تھے کئی بار جس میں رات کی رات
اذیّتوں کا نہ جس سے کوئی شُمار...
غزلِ
فِراق گورکھپُوری
یہ شوخئ نِگاہ کسی پر عیاں نہیں !
تاثیرِ دردِ عِشق، کہاں ہے کہاں نہیں
عِشق اِس طرح مِٹا کہ عَدم تک نِشاں نہیں
آ سامنے، کہ میں بھی تو اب درمیاں نہیں
مُجھ کو بھی اپنے حال کا وہْم و گُماں نہیں
تم راز داں نہیں تو کوئی راز داں نہیں
صیّاد اِس طرح تو فریبِ سُکوں نہ دے
اِس...
غزلِ
وہ برقِ ناز گُریزاں نہیں تو کُچھ بھی نہیں
مگر شریکِ رگِ جاں نہیں تو کُچھ بھی نہیں
ہزار، دل ہے تِرا مشرقِ مہ و خورشید
غُبارِ منزلِ جاناں نہیں تو کچھ بھی نہیں
سُکونِ دِل تو کہاں ہے، مگر یہ خوابِ سُکوں
نثارِ زلفِ پریشاں نہیں، تو کُچھ بھی نہیں
گُزر چُکی تِری کشتی ہزار طُوفاں سے
ہنوز حسرتِ...
غزلِ
فراق گورکھپوری
اُداسی، بے دِلی، آشفتہ حالی میں کمی کب تھی
ہماری زندگی! یارو ہماری زندگی کب تھی
علائق سے ہُوں بیگانہ ولیکن اے دلِ غمگِیں
تجھے کچھ یاد تو ہوگا، کسی سے دوستی کب تھی
حیاتِ چند روزہ بھی، حیاتِ جاوِداں نِکلی !
جو کام آئی جہاں کے، وہ متاعِ عارضی کب تھی
یہ دُنیا، کوئی پلٹا...
غزلِ
شفیق خلش
زندہ نہیں ہیں جوہر و انوار بیچ کر
اپنا قلم، نہ اپنے ہم اشعار بیچ کر
پُہنچے خود اپنے فکر و تدبّر سے ہیں یہاں
پردیس ہم نہ آئے ہیں گھربار بیچ کر
جاں کی سلامتی سے مقدّم ہے کوئی چیز
پردیس سب سِدھارے ہیں گھر یار بیچ کر
املاک کے فروخت کی مُہلت نہ تھی جنہیں
بیٹھیں ہیں مِلکیّت...
غزلِ
ضیا جالندھری
چاند ہی نِکلا نہ بادل ہی چھماچھم برسا
رات دِل پر، غمِ دِل صُورتِ شبنم برسا
جلتی جاتی ہیں جڑیں، سُوکھتے جاتے ہیں شجر
ہو جو توفیق تو آنسو ہی کوئی دَم برسا
میرے ارمان تھے برسات کے بادل کی طرح
غنچے شاکی ہیں کہ، یہ ابْر بہت کم برسا
پے بہ پے آئے سجل تاروں کی مانند خیال...