غزل
آنکھ کھل جائے جب تو کیا کیجے
جاگتے رہنے کی دعا کیجے
ہر گھڑی در کھلا رہے ہے وہ
جب بھی جی چاہے تب صدا کیجے
باہر آنا ہو گھپ اندھیروں سے
دل کو شفاف آئینہ کیجے
آرزو کیجیے کسی کی جب
چاہنے کی پھر انتہا کیجے
کچھ نہ بدلے میں ڈھونڈتے رہیے
جس کا بھی ہو سکے بھلا کیجے
عقل بھی استعمال میں آئے
دل کی...