ارے یہ کیسے نہیں گذرا ہماری نظر سے
دِلوں کی جگمگاتی بستیاں تاراج کرتے ہیں
یہی جو لوگ لگتے ہیں نہایت عام سے پہلے
ہُوا ہے وہ اگر مُنصف تو امجد احتیاطً ہم
سزا تسلیم کرتے ہیں کسی الزام سے پہلے
بے حد پسندیدہ اشعار سے مرصع غزل
ہم نے سب دکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اس قدر نہیں ہوتی
نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی
دوستو، عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی
دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی