چہرہء وقت سے اٹھے گا نہ پردا کب تک
پسِ امروز رہے گا رخِ فردا کب تک
اُس کی آنکھوں میں نمی ہے مِرے ہونٹوں پہ ہنسی
میرے اللہ یہ نیرنگِ تماشا کب تک
یہ تغافل ، یہ تجاہل ، یہ ستم ، یہ بیداد
کب تک اے خانہ بر اندازِ تمنا کب تک
بن گیا گردشِ دوراں کا نشانہ آخر
لشکرِ وقت سے لڑتا دلِ تنہا کب تک
کب...