غزلِ
قتیل شفائی
یوں آرہا ہے آج لبوں پر کسی کا نام
ہم پڑھ رہے ہوں جیسے چُھپا کر کسی کا نام
سُنسان یُوں تو کب سے ہے کُہسارِ باز دِید
کانوں میں گوُنجتا ہے برابر کسی کا نام
دی ہم نے اپنی جان تو قاتِل بنا کوئی
مشہُور اپنے دَم سے ہے گھر گھر کسی کا نام
ڈرتے ہیں اُن میں بھی نہ ہو اپنا رقیب کوئی
لیتے...
غزلِ
محسن نقوی
پَل بھر کو مِل کے اجْرِ شِناسائی دے گیا
اِک شخص، ایک عُمر کی تنہائی دے گیا
آیا تھا شوقِ چارہ گری میں کوئی، مگر
کُچھ اور دِل کے زخْم کو گہرائی دے گیا
بِچھڑا، تو دوستی کے اثاثے بھی بَٹ گئے
شُہرت وہ لے گیا، مجھے رُسوائی دے گیا
کِس کی برہنگی تِری پوشاک بن گئی ؟
کِس کا لہُو...
غزلِ
داغ دہلوی
وہ زمانہ نظر نہیں آتا
کچھ ٹِھکانا نظر نہیں آتا
جان جاتی دِکھائی دیتی ہے
اُن کا آنا نظر نہیں آتا
عِشق در پردہ پُھونکتا ہے آگ
یہ جَلانا نظر نہیں آتا
اِک زمانہ مری نظر میں رہا
اِک زمانہ نظر نہیں آتا
دِل نے اُس بزم میں بٹھا تو دِیا
اُٹھ کے جانا نظر نہیں آتا
رہیے مُشتاق...
غزلِ
شفیق خلش
ہمارے من میں بسے جو بھی روگ ہوتے ہیں
شریر کے کسی بندھن کا سوگ ہوتے ہیں
جو لاگ، بیر کسی سے بھی کُچھ نہیں رکھتے
وہی تو دہر میں سب سے نِروگ ہوتے ہیں
بُرا، بُرے کو کسی دھرم کا بنا دینا
بَھلے بُرے تو ہراِک میں ہی لوگ ہوتے ہیں
پریمیوں کے محبّت میں ڈوبے من پہ کبھی
دُکھوں کے...
غزلِ
مُحسن نقوی
کیا خزانے مِری جاں ہجر کی شب یاد آئے
تیرا چہرہ، تِری آنکھیں، تِرے لب یاد آئے
ایک تُو تھا جسے غُربت میں پُکارا دِل نے
ورنہ، بِچھڑے ہُوئے احباب تو سب یاد آئے
ہم نے ماضی کی سخاوت پہ جو پَل بھر سوچا
دُکھ بھی کیا کیا ہمیں یاروں کے سبَب یاد آئے
پُھول کِھلنے کا جو موسم مِرے دل...
جون ایلیا
مر مِٹا ہُوں خیال پر اپنے
وجد آتا ہے حال پر اپنے
ابھی مت دِیجیو جواب، کہ میں
جُھوم تو لوُں سوال پر اپنے
عُمر بھر اپنی آرزُو کی ہے
مر نہ جاؤں وصال پر اپنے
اِک عطا ہے مِری ہوس نِگہی
ناز کر خدّ و خال پر اپنے
اپنا شوق ایک حیلہ ساز، سو اب
شک ہے اُس کو جمال پر اپنے
جانے اُس دَم، وہ...
غزلِ
حکیم مومِن خاں مومِن
سم کھا موئے تو دردِ دلِ زار کم ہُوا
بارے کچھ اِس دَوا سے تو آزار کم ہُوا
کُچھ اپنے ہی نصِیب کی خُوبی تھی، بعد مرگ !
ہنگامۂ محبّتِ اغیار کم ہُوا
معشُوق سے بھی ہم نے نِبھائی برابری
واں لُطف کم ہُوا، تو یہاں پیار کم ہُوا
آئے غزال چشم سدا میرے دام میں !
صیّاد ہی رہا...
فہمیدہ ریاض
چار سُو ہے بڑی وحشت کا سماں
کسی آسیب کا سایہ ہے یہاں
کوئی آواز سی ہے مرثِیہ خواں
شہر کا شہر بنا گورستاں
ایک مخلوُق جو بستی ہے یہاں
جس پہ اِنساں کا گُزرتا ہے گمُاں
خود تو ساکت ہے مثالِ تصوِیر
جنْبش غیر سے ہے رقص کناں
کوئی چہرہ نہیں جُز زیر نقاب
نہ کوئی جسم ہے جُز بے دِل و جاں...
غزلِ
شہزاد احمد
اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
ِاک نظر میری طرف بھی تِرا جاتا کیا ہے
میری رُسوائی میں توُ بھی ہے برابر کا شریک
میرے قصّے مِرے یاروں کو سُناتا کیا ہے
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا توُ مجھ کو
دُور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے
ذہن کے پردوں پہ منزل کے ہیولے نہ بنا
غور...
غزلِ
خواجہ حیدرعلی آتش
ہوتا ہے سوزِ عِشق سے جل جل کے دِل تمام
کرتی ہے رُوح، مرحلۂ آب و گِل تمام
حقا کے عِشق رکھتے ہیں تجھ سے حَسینِ دہر
دَم بھرتے ہیں تِرا بُتِ چین و چگِل تمام
ٹپکاتے زخمِ ہجر پر اے ترک ، کیا کریں
خالی ہیں تیل سے تِرے، چہرے کے تِل تمام
دیکھا ہے جب تجھے عرق آ آ گیا ہے...
غزلِ
شفیق خلش
نہ مثلِ دشت، نہ مُمکن کسی سماں کی طرح
نجانے گھر کی یہ حالت ہُوئی کہاں کی طرح
کریں وہ ذکر ہمارا تو داستاں کی طرح
بتائیں سنگِ در اپنا اِک آستاں کی طرح
کسی کی بات کی پروا، نہ اِلتجا کا اثر
فقیہہ شہر بھی بالکل ہے آسماں کی طرح
وفورِ شوق وہ پہلا، نہ حوصلہ دِل کا !
ورُود غم...