غزلِ
پروین شاکر
میں ہجر کے عذاب سے انجان بھی نہ تھی
پر کیا ہُوا کہ صبح تلک جان بھی نہ تھی
آنے میں گھر مِرے، تجھے جتنی جھجک رہی
اس درجہ تو میں بے سرو سامان بھی نہ تھی
اِتنا سمجھ چُکی تھی میں اُس کے مِزاج کو
وہ جا رہا تھا اور میں حیران بھی نہ تھی
آراستہ تو خیر نہ تھی زندگی کبھی
پر تجھ سے...
غزلِ
اکبر الٰہ آبادی
سمجھے وہی اِس کو جو ہو دِیوانہ کسی کا
اکبر، یہ غزل میری ہے افسانہ کسی کا
گر شیخ و برہمن سُنیں افسانہ کسی کا
معبد نہ رہیں کعبہ و بُتخانہ کسی کا
اﷲ نے دی ہے جو تمھیں چاند سی صُورت
روشن بھی کرو جا کے سیہ خانہ کسی کا
اشک آنکھوں میں آ جائیں عِوضِ نیند کے صاحب
ایسا بھی...
غزل
شفیق خلش
اُن کی ہم لعْن کبھی طَعْن سے ہی پھرتے تھے
ہم کب آواز سُنے بِن بھی، کبھی پھرتے تھے
لے مُصیبت وہ محبّت میں کڑی پھرتے تھے
صبح نِکلے پہ اندھیرے کی گھڑی پھرتے تھے
اب اُسی شہر کے ہرگھر کو میں زِنداں دیکھوں !
جس کے کوچوں میں غم آزاد کبھی پھرتے تھے
دیکھ کر جن پہ غزالوں کو بھی...
غزلِ
اعتبارساجد
پُھول تھے رنگ تھے ،لمحوں کی صباحت ہم تھے
ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے
سب خِرَد مند بنے پھرتے تھے ماشاء اللہ !
بس تِرے شہر میں اِک صاحبِ وحشت ہم تھے
نام بخشا ہے تجھے کِس کے وفُورِ غم نے
گر کوئی تھا تو تِرے مُجرمِ شُہرت ہم تھے
رَتجگوں میں تِری یاد آئی تو احساس ہُوا...
وہ ہم نہیں، جنھیں سہنا یہ جبر آ جاتا
تِری جُدائی میں کِس طرح صبر آ جاتا
وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا
پروین شاکر
غزلِ
مجیب خیرآبادی
زِیست آوارہ سہی زُلفِ پریشاں کی طرح
دِل بھی اب ٹوُٹ چُکا ہے تِرے پیماں کی طرح
تو بہاروں کی طرح مجھ سے گُریزاں ہی سہی
میں نے چاہا ہے تجھے اپنے دِل و جاں کی طرح
زندگی تیری تمنّا کے سِوا کُچھ بھی نہیں
ہم سے دامن نہ بچا ابرِ گُریزاں کی طرح
تیرے عارض کے گُلابوں کی مہک اور...
یہ تلخ نوائی مِری ضامن ہے بقا کی
جو جانِ کرَم ہے وہ سِتم بانٹ رہا ہُوں
کل جن سے بدلنے کو ہے تقدیر بشر کی
میں آج وہ افکار اہم بانٹ رہا ہُوں
فراق گورکھپوری
غزلِ
داغ دہلوی
پھر کہیں چُھپتی ہے ظاہر، جب محبّت ہوچُکی
ہم بھی رُسوا ہوچُکے اُن کی بھی شُہرت ہوچُکی
دیکھ کر آئینہ، آپ ہی آپ وہ کہنے لگے !
شکل یہ پریوں کی، یہ حوُروں کی صُورت ہوچکی
مر گئے ہم مر گئے، اِس ظُلم کی کچھ حد بھی ہے
بے وفائی ہوچُکی، اے بے مروّت! ہوچُکی
کثرتِ ناز و ادا نے صبر...