غزل
(ملِک زادہ جاوید)
کسی نیزے پہ کوئی سر نہیں ہے
شجاعت سے بھرا لشکر نہیں ہے
پُرانے لوگ اُکساتے ہیں ورنہ
نئی نسلوں میں بالکل شر نہیں ہے
سبھی گملے اُٹھا لایا ہوں گھر میں
مجھے اب موسموں کا ڈر نہیں ہے
بہت کچھ تجھ میں ہے جاوید لیکن
تو اپنے باپ سے بہتر نہیں ہے
کیا دُکھ ہے سمندر کو، بتا بھی نہیں سکتا
آنسو کی طرح آنکھ تک آ بھی نہیں سکتا
تو چھوڑ رہا ہے تو خطا اس میں تیری کیا
ہر شخص میرا ساتھ نبھا بھی نہیں سکتا
ویسے تو ایک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے
ایسے کوئی طوفان، ہلا بھی نہیں سکتا
(وسیم بریلوی)
اکیلے ہوں تو کیسی محفلوں کی یاد آتی ہے
مگر محفل میں جاتے ہیں تو تنہاہی ستاتی ہے
کوئی رشتہ بنا کر مطمئن ہونا نہیں اچھا
محبت آخری دم تک تعلق آزماتی ہے
(وسیم بریلوی)