چک چک باران بهار شیرین است ، در یاد دارم تو را
شد بیدار در دل، غم دیرینم ، از ناز لاله زار
چک چک باران بهار شیرین است ، در یاد دارم تو را
شد بیدار در دل، غم دیرینم ، از ناز لاله زار
بیدلم ، بیدلم، خنجر زدند بر سینه ام ، جدا کردند ما ر ا
میهنم، میهنم ، تقدیرم آه همین است ، چرا، چرا، آی چرا؟...
غزل
(وسیم بریلوی)
میں یہ نہیں کہتا کہ میرا سر نہ ملے گا
لیکن میری آنکھوں میں تجھے ڈر نہ ملے گا
سر پر تو بٹھانے کو ہے تیار زمانہ
لیکن تیرے رہنے کو یہاں گھر نہ ملے گا
جاتی ہے چلی جائے یہ میخانے کی رونق
کم ظرفوں کے ہاتھوں میں تو ساغر نہ ملے گا
میں یہ نہیں کہتا کہ میرا سر نہ ملے گا
لیکن میری آنکھوں میں تجھے ڈر نہ ملے گا
سر پر تو بٹھانے کو ہے تیار زمانہ
لیکن تیرے رہنے کو یہاں گھر نہ ملے گا
جاتی ہے چلی جائے یہ میخانے کی رونق
کم ظرفوں کے ہاتھوں میں تو ساغر نہ ملے گا
وہ میرے گھر نہیں آتا میں اُس کے گھر نہیں جاتا
مگر احتیاطوں سے تعلق مر...
بہت خوبصورت ہو تم
(طاہر فراز)
بہت خوبصورت ہو تم
کبھی میں جو کہہ دوں محبت ہے تم سے
تو مجھ کو خُدارا غلط مت سمجھنا
کہ میری ضرورت ہو تم
ہے پھولوں کی ڈالی یہ باہیں تمہاری
ہیں خاموش جادو نگاہیں تمہاری
جو کانٹیں ہوں سب اپنے دامن میں رکھ لوں
سجاؤں میں کلیوں سے راہیں تمہاری
نظر سے زمانے کی خود کو بچانا...
وہ ہر جملہ ادھورا بولتا ہے
پھر اُس کے بعد چہرہ بولتا ہے
وہ تحت الفظ ہو یا ہو ترنّم
غزل کس کی ہے لہجہ بولتا ہے
جہنم نام لکھوا لے گا اپنے
بزرگوں سے جو اونچا بولتا ہے
(ملِک زادہ جاوید)
غزل
(ملِک زادہ جاوید)
جدھر دیکھو ستمگر بولتے ہیں
میری چھت پر کبوتر بولتے ہیں
ذرا سے نام اور تشہیر پاکر
ہم اپنے قد سے بڑھ کر بولتے ہیں
کھنڈر میں بیٹھ کر ایک بار دیکھو
گئے وقتوں کے پتھر بولتے ہیں
سنبھل کر گفتگو کرنا بزرگو!
کہ اب بچے پلٹ کر بولتے ہیں
کچھ اپنی زندگی میں مر چکے ہیں
کچھ ایسے ہیں...
جدھر دیکھو ستمگر بولتے ہیں
میری چھت پر کبوتر بولتے ہیں
ذرا سے نام اور تشہیر پاکر
ہم اپنے قد سے بڑھ کر بولتے ہیں
کھنڈر میں بیٹھ کر ایک بار دیکھو
گئے وقتوں کے پتھر بولتے ہیں
سنبھل کر گفتگو کرنا بزرگو!
کہ اب بچے پلٹ کر بولتے ہیں
کچھ اپنی زندگی میں مر چکے ہیں
کچھ ایسے ہیں جو مر کر بولتے ہیں
جو...
غزل
(طاہر فراز)
ہاتھوں میں کشکول، زباں پر تالا ہے
اپنے جینے کا انداز نرالا ہے
آہٹ سی محسوس ہوئی ہے آنکھوں کو
شاید کوئی آنسو آنے والا ہے
چاند کو جب سے الجھایا ہے شاخوں نے
پیڑ کے نیچے بےترتیب اُجالا ہے
خوشبو نے دستک دی تو احساس ہوا
گھر کے در و دیوار پر کتنا جالا ہے
ہاتھوں میں کشکول، زباں پر تالا ہے
اپنے جینے کا انداز نرالا ہے
آہٹ سی محسوس ہوئی ہے آنکھوں کو
شاید کوئی آنسو آنے والا ہے
چاند کو جب سے الجھایا ہے شاخوں نے
پیڑ کے نیچے بےترتیب اُجالا ہے
خوشبو نے دستک دی تو احساس ہوا
گھر کے در و دیوار پر کتنا جالا ہے
(طاہر فراز)
غزل
(طاہر فراز)
گوشے بدل بدل کے ہر ایک رات کاٹ دی
کچے مکاں میں اب کے بھی برسات کاٹ دی
وہ سر بھی کاٹ دیتا تو ہوتا نہ کچھ ملال
افسوس یہ ہے اُس نے میری بات کاٹ دی
حالانکہ ہم ملے تھے بڑی مدّتوں کے بعد
اوقات کی کمی نے ملاقات کاٹ دی
جب بھی ہمیں چراغ میسّر نہ آسکا
سورج کے ذکر سے شبِ ظلمات کاٹ دی
دل...
گوشے بدل بدل کے ہر ایک رات کاٹ دی
کچے مکاں میں اب کے بھی برسات کاٹ دی
وہ سر بھی کاٹ دیتا تو ہوتا نہ کچھ ملال
افسوس یہ ہے اُس نے میری بات کاٹ دی
حالانکہ ہم ملے تھے بڑی مدّتوں کے بعد
اوقات کی کمی نے ملاقات کاٹ دی
جب بھی ہمیں چراغ میسّر نہ آسکا
سورج کے ذکر سے شبِ ظلمات کاٹ دی
دل بھی لہو لہان...
غزل
(طاہر فراز)
جب کبھی بولنا، وقت پر بولنا
مدّتوں سوچنا، مختصر بولنا
ڈال دے گا ہلاکت میں اک دن تجھے
اے پرندے تیرا شاخ پر بولنا
پہلے کچھ دور تک ساتھ چل کے پرکھ
پھر مجھے ہم سفر، ہمسفر بولنا
عمر بھر کو مجھے بے صدا کر گیا
تیرا اک بار منہ پھیر کر بولنا
میری خانہ بدوشی سے پوچھے کوئی
کتنا مشکل ہے...