دیوانہ کہیں ایسی باتوں سے بہلتا ہے
وہ سامنے ہوتے ہیں دل اور مچلتا ہے
پہلے دلِ شاعر میں چشمہ سا ابلتا ہے
پھر شعر کے سانچے میں طوفان یہ ڈھلتا ہے
اس بزم میں دیکھے تو کوئی مری حیرانی
کیا سوچ کے آیا تھا کیا منہ سے نکلتا ہے
رخسار کے شعلوں کو زلفوں کی نہیں پروا
بجلی کے شراروں سے بادل کہیں جلتا ہے...