سمندروں کے سفر میں ہوا چلاتا ہے
جہاز خود نہیں چلتے، خدا چلاتا ہے
اور تجھے خبر نہیں میلے میں گھومنے والے
تیری دکان کوئی دوسرا چلاتا ہے
یہ لوگ پاؤں نہیں ذہن سے اپاہج ہیں
اُدھر چلیں گے جدھر رہنما چلاتا ہے
اور ہم اپنے بوڑھے چراغوں پہ خود اترائے
اور اُس کو بھول گئے جو ہوا چلاتا ہے
(راحت اندوری)