غزل
شاہد نور طور کیا جانیں
میرا غم ذی شعور کیا جانیں
جو گزرتی ہے عشق ماروں پر
اہلیانِ قبور کیا جانیں
ہم انہیں روزِ حشر جنکے ہو
پاس پہلو میں حور، کیا جانیں
(اشارہ: اردو محاورہ:۔ حور کے پہلو میں لنگور)
شیخ جانیں نہیں جو طعمِ شراب
طعمِ جامِ طہور کیا جانیں
چاہِ الفت میں جب گرے ہی نہیں
فرقِ...