عنقا کی طرح خَلق سے عُزلت گزیں ہُوں میں
ہُوں اِس طرح جہاں میں کہ گویا نہیں ہُوں میں
ہُوں طائرِ خیال، نہ پر ہیں نہ میرے بال !
پر اُڑ کے جا پُہنچتا کہیں سے کہیں ہُوں میں
شیخ ابراہیم ذوق
مُجھے آتا ہی نہیں بس میں کِسی کے آنا
آؤں بھی تو، بَکفِ آبلہ دار آتا ہُوں
تُجھ سے چُھٹ کر بھی، تِرے سُرخیِ عارض کی قسم
چُپکے چُپکے تِرے دِل میں کئی بار آتا ہُوں
احمد ندیم قاسمی