زندگی خوابِ پریشاں ہے، کوئی کیا جانے
موت کی لرزشِ مژگاں ہے کوئی کیا جانے
رامش و رنگ کے ایوانوں میں لہلائے حیات
صرف اکِ رات کی مہمان ہے کوئی کیا جانے
جوش ملیح آبادی
اب آگئے ہیں تو اِس دشت کے فقیروں سے
رمُوز منبر و محراب پُوچھ لیتے ہیں
کسی کوجاکے بتاتے ہیں حالِ دل ناسک
کسی سے ہجر کے آداب پُوچھ لیتے ہیں
پروفیسراطہر ناسک
لبِ جادو بیاں ہُوا خاموش
گوشِ گُل وا ہے کیوں گلستاں میں
وہ گیا جس سے بزم روشن تھی
شمع جلتی ہے کیوں شبستاں میں
الطاف حسین حالی
(مولانا محمد حسین آزاد کی رحلت پر کہے گئے
اشعار میں سے ہیں بالا اشعار )
دیوانہ بیخودی میں بڑی بات کہہ گیا
اِک حشر کی گھڑی کو ملاقات کہہ گیا
پہلا طرب شناس، بڑا سنگدل تھا دوست !
چیخیں تھیں، جن کو جُھوم کر نغمات کہہ گیا
ساغر صدیقی
دُنیا کے سِتم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبّت کے سِوا یاد
میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مِرے بُھولنے والے نے کِیا یاد
جگر مُراد آبادی