سبھی کا دُھوپ سے بچنے کو سرنہیں ہوتا
ہر آدمی کے مُقدّر میں ، گھر نہیں ہوتا
میں اُس مکان میں رہتا ہُوں اور زندہ ہُوں
وسیم ! جس میں ہَوا کا گُزر نہیں ہوتا
وسیم بریلوی
تارے جو کبھی اشک فشانی سے نِکلتے
ہم چاند اُٹھائے ہُوئے پانی سے نِکلتے
مُہلت ہی نہ دی گردشِ افلاک نے ہم کو
کیا سِلسِلۂ نقل مکانی سے نِکلتے
شاید کہ سلیم امن کی صُورت نظر آتی
ہم لوگ اگر شعلہ بیانی سے نکلتے
سلیم کوثر
اِک خیالِ خام میں مسحُور کر رکھّا مجھے
خود پرستی نے ، جہاں سے دُور کر رکھّا مجھے
تِیرگِی اطراف میں بے حد تھی لیکن ، اے منیر !
سِحرِ غم نے اُس میں مثلِ نُور کر رکھّا مجھے
منیر نیازی
میرے سمیت زمیں پر کوئی چاروں اَور نہیں
خاموشی ہے ، تنہائی ہے ، اور خُدا کی ذات
کبھی کبھی فرزانے پن کو اچھا لگتا ہے !
جان بُوجھ کر سر ٹکرانا دیواروں کے سات
شہزاداحمد
اُس کی نِگاہِ ناز نے چھیڑا کُچھ اِس طرح
اب تک اُچھل رہی ہے رگِ جانِ آرزُو
اُس نَو بہارِ ناز کی صُورت کی ہُو بَہُو
تصویر ایک ہے ، تہِ دامانِ آرزُو
اصغرگونڈوی
دل میں اِک بُوند لہو کی نہیں ، رونا کیسا
اب ٹپکتا نہیں آنکھوں سے گُلستاں کوئی
اب اِسے ہوش کہوں یا کہ جنُوں ، اے اصغر
مجھ کو ہر تار میں مِلتا ہے ، گریباں کوئی
اصغرگونڈوی
دل میں باقی نہیں وہ جوشِ جنُوں ہی، ورنہ
دامنوں کی نہ کمی ہے ، نہ گریبانوں کی
اُس نے جو آگ لگا دی وہ فروزاں ہی رہی
بُجھ گئی آگ لگائی ہُوئی ارمانوں کی
جگر مراد آبادی