اب بھی ہمارے پاؤں سے لِپٹی ہُوئی ہے عُمْر
مرنے کا انتظار ہے، جینا ضرُور ہے
یہ کیا کہ ایک عُمْر تُجھے ڈھوُنڈنے کے بعد
تُجھ سے مِلے ہیں اور بچھڑنا ضرُور ہے
اور وہ ، جو دِل نواز تھا! وہ تو چلا گیا
اِک سوگوار درد سے رشتہ ضرُور ہے
ناموں کا اِک ہجُوم سہی میرے آس پاس
دِل سُن کے ایک نام ، دھڑکتا...