ایلمار احمدوو کی تصویر سٹار ٹری (ستاروں والا درخت) نے کم روشنی والے سیکشن میں سونی کی عالمی فوٹوگرافی کے آزاد شعبے میں ایوارڈ حاصل کیا۔ آزاد شعبے میں کامیابی حاصل کرنے والوں کا اعلان منگل کو کیا گیا۔
بہ شکریہ بی بی سی اردو
ڈریگن فلائی کی کمپاؤنڈ آنکھیں تقریباً تیس ہزار منفرد سیلز پر مبنی ہوتی ہیں جسے اوماٹیڈیا کہا جاتا ہے، اس میں سے ہر سیل دماغ کو سگنل بھیجتا ہے اور پھر اس سے وہ دنیا کا منظر بناتی ہے
ہارس فلائي کی آنکھ عام آنکھوں کی طرح ہے یا پھر دو آنکھوں کے درمیان ایک تیسری آنکھ۔ اس کی پیشانی پر بھی ایک آنکھ نظر آتی ہے جو روشنی، تاریکی کا پتہ کرتی ہے
والدزک کو قریب سے فوٹوگرافی کا بہت شوق ہے۔ وہ کہتے ہیں ’میں اس میں بہت وقت لگاتا ہوں۔ میں اب بھی بہترین تکنیک اور لائٹ کے متعلق سیکھ رہا ہوں۔ مختلف حشرات کے شکلیں اور ان کے رنگ مجھے پسند ہیں۔‘
کیڑے، پتنگے اور مکھیوں کی یہ تصویریں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہیں۔ ان کی تصویریں پولینڈ کے فوٹوگرافر والدزک نے کھینچی ہیں
بہ شکریہ بی بی سی اردو
جوں جوں برف پگھلتی جا رہی ہے، برفانی ریچھوں کی تعداد میں تیزی سے کمی آتی چلی جا رہی ہے۔ اس سے ان کی قدر و قیمت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ممکن ہے کہ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ سیاح قطب شمالی کا رخ کریں
اب ریچھ انسانی آبادیوں کے قریب بھی زیادہ دیکھے جانے لگے ہیں۔ پروفیسر ڈیروچر کہتے ہیں، ’شکار نہ ملنے کی وجہ سے وہ خوراک کے متبادل ذرائع ڈھونڈنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘
راس نے دیکھا کہ ایک اور موقعے پر ایک بالغ ریچھ نے ریچھ کے بچے کو مار ڈالا۔ وہ کہتی ہیں، ’ریچھوں کے بچے بالغوں کے لیے خوراک کا نسبتاً آسان ذریعہ ثابت ہو رہے ہیں۔‘
راس کہتی ہیں، ’میں نے دیکھا کہ یہ نوجوان ریچھ ایک عمودی چٹان پر چڑھ رہا تھا۔ وہ بھوکا تھا، اور اسے انڈوں کی تلاش میں اس سے کہیں زیادہ توانائی صرف کرنا پڑی جتنی توانائی انڈے کھانے سے مل پاتی۔‘