ریختہ ویب سائٹ کے مطابق پہلا شعر کچھ اس طرح ہے؛
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
لنک یہ رہا: شاد عظیم آبادی - غزل
قریب کے زمانے میں شاعری کے اس نصب العین کی مثال مغرب میں گوئٹے اور مشرق میں مرزا غالبؒ تھے۔ ایک عرصے سے سے اِقبالؒ کی تقریبا ہر لمبی نظم میں کوئی نہ کوئی ٹکڑا یا مصرع غالبؒ سے ماخوذ چلا آ رہا تھا مگر اُنؒ کی غالبؒ پسندی یہیں تک محدود نہیں تھی۔ آم کھانا، مولویوں کو تنگ کرنا، ہندوؤں سے دوستی کرنا،...
مِیرِ سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف
آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
تیرے محیط میں کہیں گوہرِ زندگی نہیں
ڈھُونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف
عشقِ بُتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خُودی میں ڈُوب جا
نقش و نگار دیر میں خونِ جگر نہ کر تلف
کھول کے کیا بیاں کروں سِرِ مقام مَرگ و عشق
عشق ہے مرگ...
ہَر ذرّہ ہے اِک وُسعتِ صحرا میرے آگے
ہَر قَطرہ ہے اِک موجۂ دریا میرے آگے
اِک نعرہ لگا دُوں کبھی مَستی میں سرِ دار
کعبہ نہ بنے کیسے کلیسا میرے آگے
وہ خاک نشیں ہوں کہ میری زَد میں جہاں ہے
بَل کھاتی ہے کیا مَوجِ ثریّا میرے آگے
میں ہست میں ہوں نیست کا پیغامِ مجسم
اَنگُشت بَدَنداں ہے مسیحا میرے...
مولائے رِندانِ جہاں ہے
علیؑ نُورِ ھُدٰیؐ کا رازداں ہے
علیؑ شیدا مُحَمَّد مُصطفٰےؐ کا
علیؑ گَویا مکینِ لا مکاں ہے
علیؑ کی ضَرب ہے ضربِ الٰہی
علیؑ کا نام نُصرَت کا نِشاں ہے
علیؑ کے ہاتھ کو کہیے یَدُ اللّٰہ
علیؑ "مَن کُنتُ مَولا" کا بیاں ہے
علیؑ ہے کَربَلاؤں کی حقیقت
علیؑ کی داستاں کیا داستاں...
اِک مولوی صاحب کی سُناتا ہوں کہانی
تیزی نہیں منظور طبیعت کی دِکھانی
شُہرہ تھا بہت آپ کی صوفی مَنَشی کا
کرتے تھے ادب ان کا اَعالی و اَدانی
کہتے تھے کہ پنہاں ہے تصوُّف میں شریعت
جس طرح کہ الفاظ میں مُضمَر ہوں مَعانی
لبریز مئے زُہد سے تھی دل کی صراحی
تھی تہ میں کہیں درد خیال ہمہ دانی
کرتے تھے...
آدھا رستہ طے کر آیا،
اب کیا سوچ رہا ہے آخر
انجانی منزل کی جانب
چلتا جائے
یا واپس ہو جائے راہی!
سوچ کے بھی انداز عجب ہیں
سوچ کے ہی آغاز کیا تھا
سو رستوں میں ایک چنا تھا
اور اب سوچ ہی روک رہی ہے؟
آگے بھی کچھ تاریکی ہے!
لوٹ کے جانا بھی مشکل ہے!
سوچ کا سورج ڈوب رہا ہے!
ایسے راہی کی منزل ہے.... آدھا...
عَرُوسِ شَب کی زُلفَیں تھیں اَبھِی نا آشنا خَم سَے
سِتارے آسماں کے بے خبر تھے لَذَّتِ رَم سے
قمر اپنے لِباسِ نَو میں بیگانہ سا لگتا تھا
نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئینِ مُسَلّم سے
ابھی اِمکاں کے ظُلمَت خانے سے اُبھری ہی تھی دنیا
مذاقِ زندگی پوشیدہ تھا پِہنائے عالم سے
کمالِ نظمِ ہستی کی ابھی تھی...
مروند سے سندھ میں آنے والا عثمان... ایک پنجرے میں بند تھا... اُس پنجرے کے آس پاس اُس کے مرید آہ و فغاں کرتے اُس سے مرادیں مانگتے تھے، فریادیں کرتے، دعائیں مانگتے تھے...
پر اُسے کوئی بھی اُس پنجرے سے رہا نہ کرتا تھا...
اُسے عقیدت، عشق اور اُلفت کے پنجرے میں قید کر دیا گیا تھا...
جو رعنائی نگاہوں کے لئے سامانِ جلوہ ہے
لباسِ مُفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آتی
یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پَروَردہ
یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بدصورت نظر آتی
شکر گزاری
اے خدا! میں تیرا شکر گزار ہوں کہ تُو نے مجھے اس جہاں میں پیدا کیا جس میں گلابی صبح۔۔یں، شعلہ پوش شامیں اور گھنے جنگل ہیں، جن کی آغوش میں فطرت کی گزری ہوئی راتوں کی اداسی ابدیت کی نیند سوتی ہے.