You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
-
امیر اس راستے سے جو گزرتے ہیں وہ لٹتے ہیں
محلہ ہے حسینوں کا، قزاقوں کی بستی ہے
امیر مینائی
-
جوانی لے گئی ساتھ اپنے سارا عیش مستوں کا
صراحی ہے نہ شیشہ ہے نہ ساغر ہے نہ مستی ہے
امیر مینائی
-
تری مسجد میں واعظ، خاص ہیں اوقات رحمت کے
ہمارے میکدے میں رات دن رحمت برستی ہے
امیر مینائی
-
گر پڑا ہوں نگہِ مست سے چکر کھا کر
ساقیا پہلے اُٹھا تو مجھے پیمانے سے
-
روح کس مست کی پیاسی گئی مے خانے سے
مے اوڑی جاتی ہے ساقی ترے پیمانے سے
-
ایک چلّو میں بہت داغ بہک اٹھتے تھے
آج سنتے ہیں نکالے گئے مے خانے سے
-
مے وہ کیوں بہت پیتے بز مِ غیر میں یا رب
آج ہی ہوا منظور اُن کو امتحاں اپنا
-
ہم جو اب آدمی ہیں پہلے کبھی
جام ہوں گے،چھلک گئے ہوں گے
-
دل آتشِ خاموش میں سلگا ہے بہت دیر
لیکن مرے ہونٹوں پہ دھواں تک نہیں آیا۔۔۔۔
یزدانی جالندھری
-
ایک تو میں سچ کے ہاتھوں تنگ ہوں
جس کو دیکھو چھوڑ جاتا ہے مجھے۔
-
دھیمی دھیمی آنچ پر ہوں عشق میں
کیا سلیقے سے جلاتا ہے مجھے۔
-
یہ تبرک کا بہانہ ہے کہ لے لے کے رقیب
چٹکیوں ہی میں مری خاک اڑا دیتے ہیں
-
اس کو کہتے ہیں یہی باد ہوائی ہے جواب
خط کے پرزے مری جانب وہ اڑا دیتے ہیں
-
ہم پشیمان ہوں جا کر تو ہے قسمت اپنی
وہ وہیں ملتے ہیں جس گھر کا پتا دیتے ہیں
-
بات کرتے ہیں خوشی کی بھی تو اک رنج کے ساتھ
وہ ہنساتے بھی ہے ایسا کہ رلا دیتے ہیں
-
نہ ملے رنگ، رنگ میں جب تک
دل مَے آشام کا نہیں ملتا
ظرفِ بے مثل ہے دلِ پُرخوں
جوڑ اِس جام کا نہیں ملتا
-
اُس نے جب شام کا کِیا وعدہ
پھر پتہ شام کا نہیں ملتا
-
ہمیشہ تازہ دم إس کے محلے تک پہنچا ہوں
تھکن أس وقت ہوتی ہے جب وہ گھر پر نہیں ملتا
-
وہ دلبر ہے عدم وہ ماربھی ڈالے محبت سے
تو قاتل اس کو کہنا، اک سلوکِ جارحانہ ہے
-
شیخ نے مانگا ہے مجھھ سے میری توبہ کا ثبوت
لانا ٹوٹے ہوئے رکھے ہیں میرے جام کہاں ۔ ۔ ۔ ۔!
قمر جلالوی