نتائج تلاش

  1. فریب

    دیوان غالب

    نشہ ہا شادابِ رنگ و سازہا مستِ طرب شیشہٴ مے سروِ سبزِ جوئبارِ نغمہ ہے ہم نشیں مت کہہ کہ برہم کر نہ بزمِ عیشِ دو ست واں تو میر ے نا لے کو بھی اعتبارِ نغمہ ہے
  2. فریب

    دیوان غالب

    رونے سے اور عشق میں بیباک ہوگئے دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہوگئے صرفِ بہائے مے ہوئے آلاتِ میکشی تھے یہ ہی دو حساب سویو ں پاک ہوگئے رسواے دہر گو ہوئے آوار گی سے تم بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہوگئے کہتا ہے کون نالہٴ بلبل کو بے اثر پردے میں گل کے لاکھ جگر چاک ہوگئے پوچھے ہے کیا وجود و...
  3. فریب

    دیوان غالب

    کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیے تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے؟ نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ ہم ستمگر ہیں مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو بجا کہیے وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اتر جاوے نگاہِ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے نہیں ذریعہٴ راحت جراحتِ پیکاں وہ زخمِ تیغ ہے جس کو کہ دلکشا کہیے...
  4. فریب

    دیوان غالب

    بازیچہٴ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور جز وہم نہیں ہستیٴ اشیا مرے آگے ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے مت پوچھ کہ کیا حال...
  5. فریب

    دیوان غالب

    لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے میرا ذمہ، دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے کیا تعجب ہے کہ اُس کو دیکھ کر آجائے رحم وا ں تلک کوئی کسی حیلے سے پہنچا دے مجھے منہ نہ دکھلاوے نہ دکھلا پر بہ اندازِ عتاب کھول کر پردہ ذرا آنکھیں ہی دکھلا دے مجھے یاں تلک میری گرفتاری سے وہ خو ش ہے...
  6. فریب

    دیوان غالب

    زبس کہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے کشاد و بستِ مژہ سیلئ ندامت ہے نہ جانوں کیونکہ مِٹے داغِ طعنِ بدعہدی تجھے کہ آئينہ بھی ورطہٴ ملامت ہے بہ پیچ و تابِ ہوَس سِلکِ عافیت مت توڑ نگاہِ عجز سرِ رشتہٴ سلامت ہے وفا مقابل و دعواے عشق بے بنیاد جنونِ ساختہ و فصلِ گل، قیامت ہے
  7. فریب

    دیوان غالب

    کبھی نیکی بھی ا س کے جی میں گر آجائے ہے مجھ سے جفائیں کرکے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے خدایا جذبہٴ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھچتا جائے ہے مجھے سے وہ بدخو، اور میری داستانِ عشق طولانی عبارت مختصر، قاصد بھی گھبرا جائے ہے مجھ سے اُدھر وہ بدگمانی ہے...
  8. فریب

    دیوان غالب

    حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے چمن میں خوشنوایانِ چمن کی آزمائش ہے قد و گیسو میں قیس و کوہکن کی آزمائش ہے جہاں ہم ہیں، وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے کریں گے کوہکن کے حوصلے کا امتحاں آخر ہنوز اُس خستہ کے نیروے تن کی آزمائش ہے نسیمِ مصر کو کیا پیرِ کنعاں کی ہوا خواہی اسے یوسف کی بوئے...
  9. فریب

    دیوان غالب

    یاد ہے شادی میں بھی ہنگامہٴ ’’یا رب‘‘ مجھے سبحہٴ زاہد ہوا ہے خندہ زیرِ لب مجھے ہے کشادِ خاطرِ وابستہ در رہنِ سخن تھا طلسمِ قفلِ ابجد خانہٴ مکتب مجھے یا رب اُس آشفتگی کی داد کسے چاہیے رشک آسائش پہ ہے زندانیوں کی اب مجھے طبع ہے مشتاقِ لذت ہا ئے حسرت، کیا کروں آرزو سے ہے شکستِ...
  10. فریب

    دیوان غالب

    دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے کر گئی وابستہٴ تن میری عریانی مجھے بن گیا تیغِ نگاہِ یار کا سنگِ فساں مرحبا مَیں! کیا مبارک ہے گرانجانی مجھے کیوں نہ ہو بے التفاتی، اُس کی خاطر جمع ہے جانتا ہے محوِ پرسش ہائے پنہانی مجھے میرے غم خانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی لکھ دیا منجملہٴ اسبابِ...
  11. فریب

    دیوان غالب

    دیا ہے دل اگر اُس کو، بشر ہے، کیا کہیے ہوا رقیب تو ہو، نامہ بر ہے، کیا کہیے یہ ضد کہ آج نہ آوے اور آئے بِن نہ رہے قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے، کیا کہیے رہے ہے یوں گہ و بے گہ کہ کوئے دو ست کو ا ب اگر نہ کہیے کہ د شمن کا گھر ہے، کیا کہیے؟ زہے کر شمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو...
  12. فریب

    دیوان غالب

    کیوں نہ ہو چشمِ بتاں محوِ تغافل، کیوں نہ ہو یعنی اِس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے مرتے مرتے، دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی وائے ناکامی کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے عارضِ گل دیکھ روے یار ياد آیا اسد جوششِ فصلِ بہاری اشتیاق انگیز ہے
  13. فریب

    دیوان غالب

    کر ے ہے بادہٴ ترے لب سے کسبِ رنگ فرو غ خطِ پیالہ سراسر نگاہِ گلچیں ہے کبھی تو اس دلِ شوریدہ کی بھی داد ملے کہ ایک عمر سے حسرت پرستِ بالیں ہے بجا ہے، گر نہ سنے نالہ ہائے بلبلِ زار کہ گوشِ گل نم شبنم سے پنبہ آگیں ہے اسد ہے نزع میںِ، چل بے وفا براے خدا مقامِ ترکِ حجاب و...
  14. فریب

    دیوان غالب

    ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے مرتے ہیں، ولے اُن کی تمنا نہیں کرتے در پردہ اُنہیں غیر سے ہے ربط نہانی ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردا نہیں کرتے یہ باعث نومیدیٴ ارباب ہوس ہے غالب کو برا کہتے ہو اچھا نہیں کرتے!
  15. فریب

    دیوان غالب

    نہ پوچھ نسخہٴ مرہم جراحتِ دل کا کہ اس میں ریزہٴ الماس جزوِ اعظم ہے بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی وہ اِک نگہ کہ بہ ظاہر نگاہ سے کم ہے
  16. فریب

    دیوان غالب

    فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے نالہ پابندِ نَے نہیں ہے کیوں بوتے ہیں باغبان تونبے گر باغ گدائے مے نہیں ہے ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے پر تجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے ہاں کھائیو مت فریبِ ہستی ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے شادی سے گزر کہ غم نہ ہووے اردی جو نہ ہو تو وے نہیں ہے...
  17. فریب

    دیوان غالب

    تپش سے میری و قفِ کشمکش ہرتارِ بستر ہے مرا سر رنجِ بالیں ہے مر ا تن بارِ بستر ہے سرشکِ سر بہ صحرا دادہ، نورالعینِ دامن ہے دل بے دست و پا افتادہ، برخوردارِ بستر ہے خوشا اقبالِ ر نجوری، عیادت کو تم آئے ہو فروغِ شمعِ بالیں طالعِ بیدارِ بستر ہے بہ طوفاں گاہِ جوشِ اضطرابِ شامِ...
  18. فریب

    دیوان غالب

    وہ آکے خواب میں تسکینِ اضطراب تو دے دے مجھے تپشِ دل مجالِ خواب تو دے کرے ہے قتل، لگاوٹ میں تیرا رو دینا تری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے دکھا کے جنبشِ لب ہی تمام کر ہم کو نہ دے جو بوسہ تو منہ سے کہیں جواب تو دے پلا دے اوک سے ساقی! جو ہم سے نفرت ہے پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے، شراب...
  19. فریب

    دیوان غالب

    چاک کی خواہش اگر وحشت بہ عریانی کرے صبح کے مانند زخمِ دل گریبانی کرے جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ گر کیجے خیال دیدہٴ دل کو زیارت گاہِ حیرانی کرے ہے شکستن سے بھی دل نومید، یا رب کب تلک آبگینہ کوہ پر عرضِ گرانجانی کرے میکدہ گر چشمِ مستِ ناز سے پاوے شکست موے شیشہ دیدہٴ ساغر کی...
  20. فریب

    دیوان غالب

    نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبہٴ دل اُس پہ بَن جائے کچھ ایسی کہ بِن آئے نہ بنے کھیل سمجھا ہے، کہیں چھوڑ نہ دے بھول نہ جائے کاش یوں بھی ہو کہ بِن میرے ستائے نہ بنے غیر پھرتا ہے لئے یوں ترے خط کو کہ اگر...
Top