باغ پا کر خفقانی ڈرارتا ہے مجھے
سایہ شاخِ گُل افعی نظر آتا ہے مجھے
جوہرِ تیغ بہ سر چشمہ دیگر معلوم
ہُوں میں وہ سبزہ کہ زہرآب اُگاتا ہے مجھے
مدّعا محوِتماشائے شکستِ دل ہے
آئینہ خانے میں کوئی لے جات ہے مجھے
نالہ سرمایہ یک عالم و عالم کفِ خاک
آسمان بیضہ قمری نظر آتا ہے مجھے
زندگی میں تو...