بے درد ذرا انصاف تو کر
اس عمر میں اور مغموم ہے وہ
پھولوں کی طرح نازک ہے ابھہ
تاروں کی طرح معصوم ہے
یہ حُسن ستم ، یہ رنج غضب
مجبور ہوں میں ، مظلوم ہے وہ
مظلوم پہ یوں بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
ستارے جو چمکتے ہیں
کسی کی چشمِ حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
جمالِ ابر و باراں میں
یہ نہ آباد وقتوں میں
دلِ ناشاد میں ہو گی
محبت اب نہیں ہو گی
یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گُزر جائیں گے جب یہ دن
یہ اُن کی یاد میں وہ گی
ناشاد