نگاہِ شوق سے پوچھو کہ کیا گزری ترے دم پر
کسی نے منہ چُھپایا جب سرِ دیوار دامن سے
✍ مرزا محمد تقی بیگ مائلؔ دہلوی
دہلی مٹیا محل | ۱۸۵۰ – ۱۹۳۱
کُلیاتِ مائلؔ حصہ اول
تعمیر دیر و کعبہ سے مٹی ہماری کچھ
باقی جو رہ گئی تھی سو پیمانہ بن گیا
✍ مرزا محمد تقی بیگ مائلؔ دہلوی
دہلی مٹیا محل | ۱۸۵۰ – ۱۹۳۱
کُلیاتِ مائلؔ حِصّہ اول
گرد جھاڑی پیرِ میخانہ نے اپنے ہاتھ سے
دامنِ دُردی کشاں رشکِ مصلّیٰ ہو گیا
✍ مرزا محمد تقی بیگ مائلؔ دہلوی
دہلی مٹیا محل | ۱۸۵۰ – ۱۹۳۱
کُلیاتِ مائلؔ حِصّہ اول
جو کچھ گزر گئی ہے خُدا سے کہیں نہ ہم
ہم ماجرائے غم بُتِ کافر سے کیا کہیں
✍ مرزا محمد تقی بیگ مائلؔ دہلوی
دہلی مٹیا محل | ۱۸۵۰ – ۱۹۳۱
کُلیاتِ مائلؔ حِصّہ اول
کوئی پُوچھے مسیحا سے مگر یہ رات بھاری ہے
پریشاں کیوں چراغِ خانۂ بیمار جلتے ہیں
عشقؔ لکھنوی ( سید حسین مرزا )
لکھنؤ، بھارت | ۱۳۰۳ھ وفات
بازارِ سُخن/غزلیاتِ عشقؔ
مرتبہ ۔ مہذبؔ لکھنوی
خانقاہیں دیکھ لیں دیر و حرم دیکھے مگر
اب نیا معبد بنائیں گے صنم خانے کے پاس
۱۹۴۴ء
✍ پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوقؔ
شاہ جہاں پور، بھارت | ۱۸۶۳
پیامِ شوقؔ حصّہ دوم
شرمِ عصیاں کی ہمیں بھی تو جزا ملتی ہے
زہد و تقویٰ کے جو زاہد کو ثواب آتے ہیں
نواب میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع
دکن، حیدرآباد | ۱۸۸۶ – ۱۹۶۷
دیوانِ آصف سابع نظامِ حیدرآباد، جلد اول