:hatoff:
جغرافیہ میں سب سے پہلے یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا گول ہے۔ ایک زمانے میں بیشک چپٹی ہو ی تھی، پھر گول قرار پائ ۔ گول ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ لوگ مشرق کی طرف سے جاتے ہیں مغرب کی طرف جا نکلتے ہیں۔ کوئ ان کو پکڑ نہیں سکتا۔ اسمگلروں مجرموں اور سیاست دانوں کے لیے بڑی آسانی ہو گئ ہے۔...
راحت جاں سے تو یہ دل کا وبال اچھا ہے
اس نے پوچھا تو ہے اتنا، ترا حال اچھا ہے
ماہ اچھا ہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا ہے
پھر بھی ہر ایک سے کہتا ہوں کہ حال اچھا ہے
ترے آنےسے کوئ ہوش رہے یانہ رہے
اب تلک تو ترے بیمار کا حال اچھا ہے
یہ بھی ممکن ہے تری بات ہی بن جائے کوئ
اسے دے دے کوئ اچھی سی...
ایک صدمہ سا ہوا اشک جو اس بار گرے
گھر کے آنسو تھے مگر بر سر بازار گرے
ہم ہی آنہوں سے نہیں ہار کے ناچار گرے
آندھیاں جب بھی چلی ہیں کئ اشجار گرے
پھر وہی خواب ، وہی طوفاں وہی دو آوازیں
جیسے در پہلے گرے بعد میں دیوار گرے
ایسی آواز سے دل ٹوٹ کے سینے میں گرا
جیسے منجد ھار میں بھونچال سے کہسار...
پیار کرنے کے لیے گیت سنانے کے لیے
اک خزانہ ہے میرے پاس لٹانے کے لیے
یاد کے زخم ہیں وعدوں کی دھنک ہے میں ہوں
یہ بہت ہے تیری تصویر بنانے کے لیے
ہم بھی کیا لوگ ہیں خوشبو کی روایت سے الگ
خود پہ ظاہر نہ ہوے تجھ کو چھپانے کے لیے
راستہ روک ہی لیتا ہے تغیر کا غبار
ورنہ ہر راہ کھلی ہے یہاں جانے کے...
ابھی اس محفل میں نیا آیا ہوں، مجھے یہ علم نہیں ہے کہ تعارف کہاں دینا ہے، بہر حال کالم پسند کرنے کا شکریہ، ابھی ذرا گھوم پھر کر دیکھتا ہوں۔ اگر تعارف کا مقام ملا تو وہ بھی ہو جاےگا۔
اخبار میں ایک برطانوي سائنسدان کا بیان آیا ہے کہ سورج کی میعاد ختم ہونے والی ہے۔ایک روز یک لخت اس کا چراغ گل ہو جائے گا۔اس کا جانا ٹہر گیا ہے صبح گیا یا شام گيا۔
یہ خبر پڑھ کر ہماری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا ہےکیونکہ اس امر کے باوجود کہ ہمیں سورج پر بعض اعتراض ہیں، اس کی خوبیاں اظہر...
جس روز ہمارا کوچ ہوگا
پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی
شیریں سخنوں کے حرف دشنام
بے مہر زبانیں بند ہوں گی
پلکوں پہ نمی کا ذکر ہی کیا
یادوں کا سراغ تک نہ ہوگا
ہمواری ء ہر نفس سلامت
دل پر کوی داغ تک نہ ہوگا
پامالئ خواب کی کہانی
کہنے کو چراغ تک نہ ہوگا
معبود ! اس آخری سفر میں
تنہائ کو سرخ رو...
یہ راکھ راکھ رتیں اپنی رات کی قسمت
تم اپنی نیند بچھاو تم اپنے خواب چنو
بکھرتی ڈوبتی نبضوں پہ دیہان کیا دینا
تم اپنےدل میں دھڑکتے ہوے حروف سنو
تمہارے شہر کی گلیوں میں سیل رنگ بخیر
تمہارے نقش قدم پھول پھول کھلتےر ہیں
وہ رہگزر جہاں تم لمحہ بھر ٹہر کے چلو
وہاں پہ ابر جھکیں آسماں ملتے رہیں...
:مجھے خبر تھی میرے بعد وہ بکھر جاتا
سو اس کو کس کے بھروسے پہ چھوڑ کر جاتا
وہ خوشبؤں میں گھرا تھا کہ مثل سایہء ابر
میان صحن چمن میں ادھر اّدھر جاتا
وہ کوئ نشہ نہیں تھا کہ ٹوٹتا مجھ میں
وہ سا نحہ بھی نہیں تھا کہ جو گزر جاتا
وہ خواب جیسا کوئ تھا نگار خانہ ء حسن
میں جتنا دیکھتا وہ اتناہی سنور جاتا...