تجھے کیا پتا تیری یاد نے مجھے کیسے کیسے ستا دیا
کبھی محفل میں رُلا دیا کبھی خلوتوں میں ہنسا دیا
کبھی یوں ہوا تیری یاد میں نماز اپنی قضا ہوئی
کبھی یوں ہوا تیری یاد نے میرے رب سے مجھکو ملا دیا
آنکھیں کھلیں تو خوابوں کو برا لگا مگر
کچھ دیر وہ رہ کے مضطرب خود ہی بہل گئے
پہلے پہل تو عجیب لگے بدلے ہوئے چہرے
پھر یوں ہوا کہ وقت کے ساتھ ہم بھی سنبھل گئے
:?:
وہ چاند شخص کہیں روشنی میں ڈوب گیا
ہم اپنا ہاتھ ہلاتے ہیں روتے جاتے ہیں
ہمارے رونے پہ وہ ہنستے ہیں تو یوں ہی سہی
ہم ان کو اور ہنساتے ہیں روتے جاتے ہیں
:?: