سرِ بازار نہ دستار اچھالی جائے۔
جو سنبھل سکتی ہے اب بات سنبھالی جائے۔
٭ ٭ ٭
در و دیوار کا کیا دوش تھا، کیا چھت کی خطا۔
ان پہ بنیاد کی تہمت نہیں ڈالی جائے۔
٭ ٭ ٭
بادباں ڈھونڈھ کے، سمتوں کا تعین کیا جائے۔
ناخداؤں سے اب امید اٹھا لی جائے۔
٭ ٭ ٭
گھر کی تنگی ہوئی، اک وسعتِ صحرا نہ ہوئی۔
لوٹ...