کٹھن ہے زندگی کتنی
سفر دشوار کتنا ہے
کبھی پاؤں نہیں چلتے
کبھی رستے نہیں ملتے
ہمارا ساتھ دے پائے
کوئی ایسا نہیں ملتا
فقط ایسے گذاروں تو
یہ شب و روز نہیں کٹتے
یہ کٹتے تھے کبھی پہلے
مگر ہاں اب نہیں کٹتے
مجھے پھر بھی میرے مالک
کوئی شکوہ نہیں تجھ سے
میں جاں پہ کھیل سکتا ہوں
میں ہر دکھ...
سوادِ تشنگی کو کس قدر سیراب کرتا تھا
اب اس آب ِ رواں کی ہر عنایت یاد آتی ہے
وہ کہتا تھا ہم دائم ہیں اور سب لوگ فانی ہیں
سو اب سب لوگ ہیں اور اسکی کہاوت یاد آتی ہے
لکھ رہے ہیں ہم محبت ،نفرتوں کے درمیاں
آنے والوں کو ہمارے یہ ہنر یاد آئیں گے
رفتہ رفتہ بھول جائیں گے سفر کی داستاں
مدّتوں لیکن ہمیں کچھ راہ گذر یاد آئیں گے
میری زندگی تو فراق ہے وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
ہمیں جان دینی ہے ایک دن وہ کسی طرح وہ کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچیے دار پر جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی
سر ِ طور ہو،سرِ حشر ہو،ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں،وہ کہیں ملیں،وہ کبھی سہی،وہ کہیں سہی...
منزل بھی اسکی تھی،راستہ بھی اسکا تھا
ایک میں اکیلاتھا،فاصلہ بھی اسکا تھا
ساتھ ساتھ چلنے کی سوچ بھی اسکی تھی
پھر راستہ بدلنے کا فیصلہ بھی اسکا تھا
آج کیوں اکیلا ہوں،دل سوال کرتا ہے
لوگ تو اسکے تھے،کیا خدا بھی اسکا تھا