تہہ ِ بار سنگ گراں ہے دل کہ ہے خاک خاک اٹا ہوا
کہیں فرد فرد سے رابطے،کہیں شہر بھر سے کٹا ہوا
مجھے بھیجتے ہو سمندروں کے سفر پہ کس لیئے دوستو
میری ناؤ بھی ہےِچِھدی ہوئی میرا بادباں بھی پھٹا ہوا
میرے غم کا ساتھی میرے بخت کا ستارا
تیری آرزو نے لوٹا تیری جستجو نے مارا
میں بساطِ زندگی پر غم ِ آرزو کی بازی
کبھی انکی شہہ پہ جیتا،کبھی دل کی شہہ پہ ہارا
سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں
بس ذرا وفا کم ہے تیرے شہر والوں میں
پہلی بار نظروں نے چاند بولتے دیکھا
ہم جواب کیا دیتے خود کھو گئے سوالوں میں
جواب اگلا لفظ