ہمہ وقت رنج و ملال کیا جو گذر گیا سو گذر گیا
اسے یاد کر کے نہ دل دکھا جو گذر گیا سو گذر گیا
وہ غزل کی اک کتاب تھا وہ گلوں میں اک گلاب تھا
ذرا دیر کا کوئی خواب تھا جو گذر گیا سو گذر گیا
نم ہیں پلکیں تری اے موجِ ہوا رات کے ساتھ
کیا تجھے بھی کوئی یاد آتا ہے برسات کے ساتھ
کبھی تنہائی سے محروم نہ رکھا مجھ کو
دوست ہمدرد رہے کتنے میری ذات کے ساتھ
ہمیں لاحق جو اک بے نام سا غم ہے،عجب غم ہے
تبسّم زیر لب ہے آنکھ پُرنم ہے،عجب غم ہے
بظاہر روشنی ہے،زندگی ہے،دلنوازی ہے
درونِ خانہ ء دل شورِ ماتم ہے،عجب غم ہے