نتائج تلاش

  1. س

    تھاضبط ایسا کہ چہرے سے غم عیاں نہ ہوا

    سر الف عین سید عاطف علی محمد احسن سمیع:راحل اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے ترے فریب تھے لاکھوں مَیں بدگماں نہ ہوا تھاضبط ایسا کہ چہرے سے غم عیاں نہ ہوا لگا کے عمر تعلق جو استوار کِیا خزاں جو آئی ذرا بھر وہ گلفشاں نہ ہوا مرے خلوص کی تُو نے لگائی جب قیمت تو مجھ پہ موت کا عالم تھا کچھ...
  2. س

    لاکھ دشمن ہیں مگر کوئی طرفدار نہیں

    سر الف عین سید عاطف علی محمد احسن سمیع:راحل اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے پیچھے ہٹ جاؤں مَیں ایسا بھی گنہگار نہیں آگے بڑھنے کو مگر وہ ہے کہ تیار نہیں دل مرا ضد پہ اڑا ہے کسی بچے کی طرح اِس کو معلوم ہے کیا مَیں ترا معیار نہیں ایسا لگتا ہے تجھے میری ضرورت نہ رہی چھوڑ یہ بات کہ...
  3. س

    اُس کا اقرار محبت ہے مروت اُس کی

    سر الف عین سید عاطف علی محمد احسن سمیع راحل اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے اُس کا اقرار محبت ہے مروت اُس کی روٹھنا پیار سے ہربار ہے عادت اُس کی اُس کی سانسیں مری جلوت کو معطر کر دیں یوں ہے رقصاں مرے خوابوں میں رفاقت اُس کی اُس کی آغوش تھی یا کوئی نشے کا عالم میری ہر سانس میں...
  4. س

    دل میں حسرت ہی رہی کوئی ہمارا ہوتا

    سر اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہوں سر الف عین سید عاطف علی محمد احسن سمیع راحل اور دیگر احباب وقتِ آخر نہ اگر تیرا نظارا ہوتا کس طرح کرب کے ماروں کا گذارا ہوتا اس طرح وصل کے لمحات میسر ہوتے ہم کو گھِر کر بھی فقط تیرا سہارا ہوتا ہجر کے درد سے بہتر تھا کہ پہلے سے کہیں روح میں قرب کا احساس اتارا...
  5. س

    جا، کہ اب تو ڈھلنے کو ہے آفتابِ زیست

    سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے دیکھی جوہم نے کھول کے اپنی کتابِ زیست ہر اک ورق سے خوب عیاں تھا سرابِ زیست ٹکرا گئی نظر سے نظر تو پتا چلا تعبیر کو ہے پہنچا ہمارا وہ خوابِ زیست جب منتخب کِیے ہیں سبھی خار باخوشی حصے میں کیسے آتے ہمارے٬ گلابِ زیست ْبیتے ہیں ماہ و سال ترے...
  6. س

    اب مجھے زخم لگا کر وہ مسیحا نہ بنے

    سر الف عین ، سید عاطف علی اور دیگر احباب سے اصلاح کے لئے درخواست ہے زندگی بیت گئی وصل کی تدبیروں میں پھر بھی مایوس ہوں میں کوئی ذریعہ نہ بنے میں ترے حسن کو شعروں میں سجادوں لیکن لفظ گم ہیں ترا بے مثل سراپا نہ بنے روح بسمل ہوئی الفاظ کی ضربوں سے مری اب مجھے زخم لگا کر وہ مسیحا نہ بنے...
  7. س

    ہم نے اس قطرۀِ شبنم پہ بہائے آنسو

    سر الف عین ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحل اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے اس کے انکار پہ آنکھوں میں بھر آئے آنسو اپنی ناکام امنگوں کو پلائے آنسو جاں بلب ہم تھے مگر ضبط نہ ٹوٹا پھر بھی ایسے مژگاں کے جھروکوں میں چھپائے آنسو ڈگمگائی جو کبھی ہجر میں امید کی لو ہم نے اسوقت چراغوں...
  8. س

    عہدِ عروج ہو یا عہدِ زوال ہو

    سر الف عین ، سید عاطف علی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے عہدِ عروج ہو یا عہدِ زوال ہو ہر حال میں میسر تیرا خیال ہو ڈھونڈوں جواب تیری تصویر سے سبھی ہراک جھلک میں پنہاں تازہ سوال ہو بے چینیوں کا منظر آنکھوں میں رتجگے ہر پل لگے ہے جیسے صدیوں کا سال ہو ہر زخم کھا کے میری نکھری ہے...
  9. س

    کیسا عجب تعلق تجھ سے بنا لیا

    سر الف عین ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحل اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے میں نے انا بھلا کر خود کو جھکا لیا تیرا وہ ظرف تو نے پتھر اٹھالیا تو مال وزر کے پیچھے بس بھاگتا رہا میں ہوں کہ تیری رہ میں خود کو گنوا لیا آنسو رہے مقید مژگاں کے ضبط میں اپنی وفا کا بدلہ یوں تجھ سے پا...
  10. س

    اس وقت ہمسفر مری تنہائیاں بھی ہیں

    سر الف عین ، سید عاطف علی اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے ان پائلوں کے شور میں شہنائیاں بھی ہیں رونق بھرا دیار ہے رسوائیاں بھی ہیں جاؤ نہ منجدھار میں روکا تھا باربار جتنا بھی صاف آب ہے گہرائیاں بھی ہیں آنکھوں کو خاک رونقِ بازار بھائے گی اس وقت ہمسفر مری تنہائیاں بھی ہیں اجڑے دیار میں جو...
  11. س

    تاروں بھری ہے رات تری یاد بھی ہے ساتھ

    سر الف عین ٗ سید عاطف علی محمد خلیل الرحمٰن اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے سب کچھ مرا ڈبو کے وہ ایسے بھنور گیا یوں روح تک تباہی کا گہرا اثر گیا تاروں بھری ہے رات تری یاد بھی ہے ساتھ کتنے حسین پل ہیں میں پوروں سنور گیا بازو پہ سو رہا تھا وہ پہلو میں رات بھر آنکھیں کھلیں جو صبح تو...
  12. س

    قصئہِ درد یہ لوگوں کو سناؤں کیسے

    سر الف عین ، سید عاطف علی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے اپنے دل کی تجھے حالت مَیں بتاؤں کیسے زخم جو روح پہ ہیں وہ مَیں دِکھاؤں کیسے داستاں دل کی ہمیشہ سےادھوری ہی رہی قصئہِ درد یہ لوگوں کو سناؤں کیسے عام لوگوں سے الگ تیرا شمار اب بھی ہے پھر بھی ہر ظلم کا مَیں بار اٹھاؤں کیسے لا تعلق...
  13. س

    گئی رتوں کا ہراک سوگ تو بہار میں ہے

    سر الف عین سید عاطف علی محمد خلیل الرحمٰن اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے وہ بے رخی سی ہمیشہ ترے شعار میں ہے کہ تیراحسنِ تکلم مری پکار میں ہے اگرچہ ہجرِ مسلسل ہے پھر بھی ایسا لگے مرا وجود ترے وصل کے خمار میں ہے وہ جس کے قرب میں جینا ہوا ہے ناممکن اسی کی راہ میں مٹنا تو اختیار میں...
  14. س

    کہہ کے مجنوں وہ مجھے سنگ اٹھائے یارو

    سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گزارش ہے تبصرہ کوئی نہ چھیڑے مری بربادی کا خون پوروں میں ہراک بات جلائے یارو مطلبی لوگ ہیں یاں کس سے میں فریاد کروں باوفا درد ہے جو ساتھ نبھائے یارو اپنی ہستی کہیں یادوں کے بھنور میں الجھی آ کے کشتی کوئی ساحل سے لگائے یارو میرا معیارِ جنوں ہے تو فقط...
  15. س

    جب لکھا دل پہ فقط نام تمھارا دیکھا

    سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے ٹوٹتا جب بھی فلک سے کوئی تارا دیکھا وقتِ رخصت کا وہی عکس دوبارہ دیکھا جھلملاتے ہوئے آنسو مرے دامن میں گرے جب لکھا دل پہ فقط نام تمھارا دیکھا لوٹ جاؤں اسی گرداب میں خواہش تھی مری بحرِ تنہائی میں جب ڈوبا کنارا دیکھا ہر ورق پر مجھے تصویر تمھاری...
  16. س

    خود سمجھ پائے نہ توقیر مرے خوابوں کی

    سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے کتنی الٹی ہوئی تعبیر مرے خوابوں کی لٹ گئی لمحوں میں جاگیر مرے خوابوں کی بسترِ مرگ پہ ہوں جب مجھے دفناؤ گے رکھنا بس قبر پہ تصویر مرے خوابوں کی خواب ٹوٹے ہیں مرے جسم ہے بے جاں سا مرا کاش کر دے کوئی تعمیر مرے خوابوں کی عمر بھر دیتے رہے درس...
  17. س

    عشق میرا ہی مرا سود و زیاں ہے یارو

    سر الف عین سر یاسر شاہ عظیم فلسفی اصلاح کے لئے حاضرِ خدمت ہوں میری آواز میں جو سوز نہاں ہے یارو اب تو چہرے سے بھی وہ خوب عیاں ہے یارو جا چکا چھوڑ کے یونہی جو مرے دل کا مکاں اس کے ہونے کا مگر دل میں گماں ہے یارو ناتواں جان پہ دل لاکھ ستم کرتا ہے جو نہیں اپنا وہی وردِ...
  18. س

    چھو لے جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے

    سر الف عین یاسر شاہ عظیم فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے مینا و جام کیا ہیں ہمیں کچھ خبر نہیں چھو لے جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے دنیا کی دلکشی سے ہمیں کچھ غرض نہیں تنہا ہے زندگی جو وہ ساری سراب ہے صفحاتِ زیست میرے پلٹ کر تو دیکھ تُو بس اک خیال تیرا مکمل نصاب ہے۔ کر دے فضاؤں کو...
  19. س

    خود شبِ ہجر میں تڑپو گے تو یاد آؤں گا

    سر الف عین عظیم فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے جب بھی برسات میں بھیگو گے تو یاد آؤں گا بھیگی زلفوں کو سنوارو گے تو یاد آؤں گا میرے معصوم سے جذبے مری پاگل باتیں جب کبھی بیٹھ کے سوچو گے تو یاد آؤں گا کل کسی اور نے جب تم کو دئیے یہ آنسو اپنے خود اشک جو پونچھو گے تو یاد آؤں گا...
  20. س

    میری آج اس کے سبب شہر میں پہچان ہوئی

    سر الف عین عظیم فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے کیسی ہستی ہے کہ جو روح کی مہمان ہوئی پھول آنگن میں کھلے وجہ گلستان ہوئی میری آنکھوں میں چکا چوند لگی ہے کب سے میری آج اس کے سبب شہر میں پہچان ہوئی جب سنی تھی ترے جانے کی خبر لوگوں سے یوں لگا ہستی مری بے سروسامان ہوئی اس کا منہ...
Top