نتائج تلاش

  1. فیضان قیصر

    ایک قطعہ

    پھوڑیئے سر ہی اب یہ پتھر سے کب تلک کارِ بے مزا کیجے دل کسی طور بھی نہ بہلے تو کوئی بتلا ئےگا؟ کہ کیا کیجے؟
  2. فیضان قیصر

    فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن برائے اصلاح

    صبح ہوگئی ہے اب اسکو رات کرنا ہے روز کی اذِیت سے آج پھر گزرنا ہے آپ کو محبت ہونے لگی ہے مجھ سے جاں آپ کو بھی کیا میری طرح سے بکھرنا ہے حیف! اسکی قسمت میں ہے خزاں کی ویرانی آمدِ بہاراں پر جو بھی گل نکھرنا ہے عشق میں تمھاری ناکامی کی سزا یہ ہے روز تم کو جینا ہے روز تم کو مرنا ہے فیض آپ...
  3. فیضان قیصر

    غزل برائے اصلاح (فاعلاتن مفاعلن فِعْلن)

    ٹھیک ہے اب مجھے اجازت دو تم نہیں سمجھے مسئلہ کیا ہے آج بھی تم اداس بیٹھے ہو؟ آج معلوم ہے وجہ کیا ہے؟ پند اپنے ہی پاس رکھ ناصح تُو مجھے یہ بتا دوا کیا ہے لاکھ کوشش کے بعد بھی اب تو یاد آتا نہیں مزا کیا ہے جنکو لگتا ہے بے وفا ہوں میں انکا پیمانہِ وفا کیا ہے آپ کو ناگوار گزرے گی میری رائے کا...
  4. فیضان قیصر

    فعولن فعولن فعولن فعولن برائے اصلاح

    سنا ہے کہ تم نے یہ دل دے دیا ہے یہ کس کے بھروسے پہ تم نے کیا ہے؟ گویا کہ میرے لئے لازمی تھی تری بے وفائی مرا ارتقا ہے کسی شہر میں بھی یہ بے زار دل تو نہ پہلے لگا ہے نہ اب لگ رہا ہے کوئی بات ہے جو تمھیں ہو گوار؟ا تمھاری انا کی کوئی انتہا ہے؟ ذرا تم بتائو کہ تم کیا کروگے اسے جو بھی کرنا تھا وہ کر...
  5. فیضان قیصر

    مفتَعِلن فاعلاتُ مفتَعِلن فِع برائے اصلاح

    موڈ پہ موقوف ہے ارادہ نہیں ہے وعدہ ملاقات کا لِہٰذ ا نہیں ہے آپ کی سب لغزشوں کو بخش دوں گا میں اتنا بھی محترمہ دل کشادہ نہیں ہے حسرتوں کے جال میں پھنسی ہے ہمہ دم زندگی کا کوئی لمحہ سادہ نہیں ہے اشکوں کو پینے میں اعتراض کیا ہے اشک ہی تو ہیں جناب بادہ نہیں ہے وہ یہ مگر۔چھوڑو، صاف کیوں نہیں کہتے...
  6. فیضان قیصر

    غزل برائے اصلاح (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن

    سکھ، نصارا ،مسلمان مرتے گئے سب ھی تجھ پہ مری جان مرتے گئے شہرِ دل میں بپا زلزلے کے سبب ایک اک کرکے ارمان مرتے گئے خانئہ دل تو آسیب کا مارا تھا اس میں ٹھرے جو مہمان مرتے گئے زندگی کے سفر میں ہی فیضان جی ہم نے دیکھا کہ انسان مرتے گئے
  7. فیضان قیصر

    برائے اصلاح۔ مہرباں حضرات نظر فرمائیں۔

    تم حبس میں تازہ ہوا کا جھونکا ہو صاحب تم تپتی زمیں پر سکوں کا سایا ہو صاحب تب جا کے شکایت کا بھی نخرہ اٹھائوں میں گھر پہ تمھیں آنے سے اگر روکا ہو صاحب اس بات کو لیکر میں بڑی الجھنوں میں ہوں تم یار ہو یا ناصحہ یا دھوکا ہو صاحب اب تو خوشی کی بات پہ بھی خوش نہیں ہے دل اب زندگی سے جیسے جی بھرچکا ہو...
  8. فیضان قیصر

    برائے اصلاح اساتذہ کی خدمت میں اک غزل

    اس طرح ٹالو نا بے اعتنا ہو کر میں یہاں آیا ہوں تم تک تبا ہوکر لینگے بدلہ تمھارے روٹھنے کا جاں ہم کسی بات پہ تم سے خفا ہوکر اک گلہ ہے تمھاری دوستی سے یار تنگ کرتے ہو تم بھی آشنا ہوکر پایا ہے زندگی بھر دردِ دل ہم نے مخلص و با ضمیر و با وفا ہوکر پھر کسی کام کا رہتا نہیں انساں چشم و مژگاں اے...
  9. فیضان قیصر

    مرزا تمیزالدین

    مرزا تمیزالدین مصّنف: ڈاکٹرفیضان قیصر مرزا تمیزالدین کا شمار ہمارے سابقہ دوستوں میں ہوتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہینگے کہ اللہ انکو جیتا رکھے کیونکہ انھوں نے تو ہمارا جینا حرام کر رکھا ھے اگر وہ جیتے رہے تو مجبوراً ہمیں ہی اپنے مرنے کی دعا مانگنی پڑیگی ۔ مرزا صاحب سے ہماری ملاقات اک ادبی محفل میں ہوئی...
  10. فیضان قیصر

    معلومات درکار ہے

    بعد از سلام عرض ہے مجھے اس حوالے معلومات درکار ہیں کہ آیا ( روکا،سایا،جھرونکا،دھوکا، چکا،) کیا یہ ہم قافیہ مانے جائینگے شکریہ
Top