آپ کی اس گرانقدر رائے کیلیے بہت شکرگزار ہوں،
میرا خیال ہے کہ یہ غزل پرانے سسٹم سے یہاں منتقل کی تھی، اس لیے اس کا فانٹ پہلے والا ہے اور شاید میں نے بدلنے کے کوشش بھی کی تھی لیکن ناکام رہا۔
شاہین فصیح ربانی
غزل
عرصہء خواب میں رہا جائے
نام تعبیر کا دیا جائے
اس طرف بے سبب چلا جائے
جس طرف دشت کی ہوا جائے
اس یقیں سے سفر کیا جائے
آپ منزل قریب آ جائے
گھر سے مایوس کیوں ہوا جائے
سامنے ہی دیا رکھا جائے
اک جہاں درمیان حائل ہے
کیسے اس تک مری صدا جائے
وہ مری داستاں سنے نہ...
حوصلہ افزائی کرنے کے لیے بہت شکرگزار ہوں آپ کا،
ہر پل شاد رہیے۔
آپ کا ای میل ایڈریس درکا ہو گا غزلیں بھیجنے کے لیے لیکن کچھ وقت لگ جائے گا۔
آپ کی اس نوازش کے لیے بھی بہت ممنون ہوں۔
محترم جناب عبید صاحب، السلام علیکم
سب سے پہلے آپ کو عیدالفطر کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اور اس کو بعد آپ کا شکریہ ہ میری غزل کو سراہا اور مجھے اپنی شاعری کمپائل کر کے آپ کو بھیجنے کو کہا کہ برقی کتب میں شامل ہو سکے، مجھے یقینآ اس کے لیے وقت چاہیے کہ بہت سی غزلیات میں سے انتخاب کرنا اور پھر...
شاہین فصیح ربانی
غزل
پہلے اس خاکدان سے نکلے
پھر کوئی آسمان سے نکلے
حسرتوں کے جہان سے نکلے
دل جو تیرے گمان سے نکلے
دونوں کردار ہی ضروری ہیں
کون اس داستان سے نکلے
اس کے ہونے سے میرا ہونا ہے
پھر وہ کیوں میرے دھیان سے نکلے
رنجشیں جس سے اور بڑھ جائیں
لفظ وہ کیوں زبان سے...
محترم الف عین صاحب!
آپ کا میری اس ادنیٰ سی کاوش کو سراہنا، میرے لیے اعزاز کا درجہ رکھتا ہے،
اس نوازش کے لہے میں آپ کا تہِ دل سے شکرگزار ہوں،
"چور چور" والا مشورہ بھی بہت اچھا اور مقبول ہے۔
ہر ہر لمحہ شاداں و فرحاں رہیے۔
اس کی بحر ہے:
متدارک مخبون یا مقطوع سولہ رکنی
اس میں فاع فعولُن نہیں بلکہ "فعِلُن" آتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں "کوئی قہر نہیں کوئی مہر نہیں" چار فعِلُن
کے برابر ہے۔
شاہین فصیحؔ ربانی
غزل
رابطہ جب مہ و اختر سے ہوا
آشنا رات کے منظر سے ہوا
پل گھڑی دُور سمندر سے رہے
یہ کہاں تیرے شناور سے ہوا
چوٹ باہر کی تو سہ جاتا میں
وار مجھ پر مرے اندر سے ہوا
فوج دشمن کی تعاقب میں نہ تھی
قتل میں اپنے ہی لشکر سے ہوا
مجھ کو دنیا سے شکایت کیوں ہو
جو ہوا، میرے مقدر سے ہوا...