شاہین فصیح ربانی
غزل
پھیر لیتا ہے مجھ سے تو آنکھیں
چھوڑ دیتی ہیں آرزو آنکھیں
کوئی دیوانہ اس کو سمجھے گا
کر رہی ہیں جو گفتگو آنکھیں
پا لیا پھر بھی مدعا میں نے
چپ رہیں میرے روبرو آنکھیں
آئنہ جھوٹ کس طرح بولے
آئی ہیں اس کے روبرو آنکھیں
میں کہاں ان سے بچ کے جاؤں گا
رقص کرتی...