نتائج تلاش

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش خوش باش زندگی کے کسی باب کی طرح۔شفیق خلشؔ

    غزل خوش باش زندگی کے کسی باب کی طرح ہم دن گُزار آئے حَسِیں خواب کی طرح پل بھر نہ اِنحِرافِ نظارہ، نہ اِحتِمال! تھے کم نہ لُطفِ دید میں مہتاب کی طرح بارآورایک بھی دِلی خواہش نہیں ہوئی گُزری ہر ایک شب شَبِ سُرخاب کی طرح ہم دِل کی بے بَسی کا ازالہ نہ کر سکے! گھیرا تھا اُن کےعشق نے گرداب کی...
  2. طارق شاہ

    صَبا میں مست خِرامی گُلوں میں بُو نہ رہے -ساجدہ زیدی

    غزل صَبا میں مست خِرامی گُلوں میں بُو نہ رہے تِرا خیال اگر دِل کے رُو برُو نہ رہے تیرے بغیر ہر اِک آرزُو ادھُوری ہے جو تُو مِلے تو، مجھے کوئی آرزُو نہ رہے ہے جُستجوُ میں تِری اِک جہاں کا درد و نِشاط تو کیا عجب کہ، کوئی اور جُستجُو نہ رہے تِری طَلب سے عبارت ہے میری سوز و حیات ہو سرد...
  3. طارق شاہ

    شفیق خلش ا گر نہ لُطف دِل و جاں پہ بے بہا ہوگا

    غزل شفیق خلؔش ا گر نہ لُطف دِل و جاں پہ بے بہا ہوگا تو اِضطِراب ہی بے حد و اِنتہا ہوگا خُدا ہی جانے، کہ درپیش کیا رہا ہوگا ہمارے بارے اگر اُس نے یہ کہا ہوگا ہُوا نہ مجھ سے جُدائی کے ہر عذاب کا ذکر ! اِس اِک خیال سے، اُس نے بھی یہ سہا ہوگا خیال آئے بندھی ہچکیوں پہ اس کا ضرور کسی بہانے ہمیں...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::ہو خیال ایسا جس میں دَم خَم ہو:::::: Shafiq-Khalish

    غزل ہو خیال ایسا جس میں دَم خَم ہو شاید اُس محوِیّت سے غم کم ہو ہُوں مَرِیض ایسا جو لَبِ دم ہو اذّیتِ فُرق تو، ذرا کم ہو پھر بہار آئے میرے کانوں پر پھر سے پائل کی اِن میں چھم چھم ہو اب میسّر کہاں سہُولت وہ ! اُن کو دیکھا اور اپنا غم کم ہو کب ملاقات اب وہ پہلی سی ذکر تک اپنا اُن سے کم کم ہو...
  5. طارق شاہ

    مومن دل بستگی سی ہے کسی زلفِ دوتا کے ساتھ ۔ مومن خان مومن

    یادِ ہوائے یار، نے کیا کیا نہ گُل کِھلائے ! آئی چمن سے نِکہتِ گُل جب صَبا کے ساتھ میں کِینے سے بھی خوش ہُوں، کہ سب یہ تو کہتے ہیں ! اُس فِتنہ گر کو لاگ ہے اِس مُبتلا کے ساتھ آتے ہی تیرے چل دِیے سب، ورنہ یاس کا کیسا ہجوم تھا ، دِلِ حسرت فزا کے ساتھ مانگا کریں گے اب سے دُعا ہجرِ...
  6. طارق شاہ

    عزیز حامد مدنی وداع ۔ عزیز حامد مدنی

    وِداع رات آدھی ہُوئی، نیّتِ شب حَرام بُوئے گُل، حرفِ پیماں سلامت رہے رات کی نم ہواؤں کی زنجِیر میں کاکلیں کُھل گئیں شوقِ تقصِیر میں رکھ دِیے آئنے کُوئے تعبیر میں خواب نے، دستِ عُشّاق نے، رات نے عشقِ بے ساز و ساماں سلامت رہے کِھل اُٹھے موج خُوں میں گل و یاسمن سِلسِلے یاد کے، رشتہ ہائے کُہن...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش اپنی مرضی سے گو نہیں آئے

    غزل شفیق خلشؔ اپنی مرضی سے گو نہیں آئے رونا قسمت کا رو نہیں آئے دُوری اِک عارضی تقاضہ تھی اُن سے ہم ہاتھ دھو نہیں آئے دِل کی بربادی کا سَبب ہیں وہی کہہ کے آنے کا، جو نہیں آئے یار مطلُوب تھے جو کاندھے کو ! دو ہی پہنچے تھے، دو نہیں آئے بندھ ٹوٹیں گے ضبط کے سارے یہ ہَمَیں ڈر تھا، سو نہیں آئے...
  8. طارق شاہ

    داغ جگر کو تھام کے میں بزمِ یار سے اٹھا ۔ داغ دہلوی

    جِگر کو تھام کے، مَیں بَزْمِ یار سے اُٹّھا ہر اِک قرار سے بیٹھا، قرار سے اُٹّھا ہمارے دِل نے، وہ تنہا اُٹھالِیا ظالم! تِرا سِتَم، جو نہ اِک روزگار سے اُٹّھا ہُوا نہ پِھر کہِیں رَوشن، یہ رشک تو دیکھو کوئی چراغ، جو میرے مزار سے اُٹّھا شَبِ فِراق اَجَل کی بہُت دُعا مانگی! جِگر میں درد، بڑے...
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش لاحق اگرچہ پہلی سی وہ بیکلی نہیں

    غزل لاحق اگرچہ پہلی سی وہ بیکلی نہیں ! لیکن ملال و حُزن کی صُورت بَھلی نہیں ہیش اُن کے، سچ یہی ہے کہ اپنی گلی نہیں کوشش ہزار کی، مگر اِک بھی چلی نہیں درپے ہے جاں کی اب بھی خیالوں میں وہ پری جس کے شباب کی ذرا رنگت ڈھلی نہیں کب دِل میں میرے عزمِ مُصمّم کے زور پر نِسبت سے اُن کی اِک نئی...
  10. طارق شاہ

    چاند ہی نِکلا، نہ بادل ہی چَھما چَھم برسا ۔ ضیاؔ جالندھری

    غزل ضیاؔ جالندھری چاند ہی نِکلا، نہ بادل ہی چَھما چَھم برسا رات دِل پر، غَمِ دِل صُورتِ شبنم برسا جلتی جاتی ہیں جَڑیں، سُوکھتے جاتے ہیں شَجر ہو جو توفیِق! تو آنسو ہی کوئی دَم برسا میرے ارمان تھے برسات کے بادل کی طرح غُنچے شاکی ہیں کہ، یہ ابر بہت کم برسا پے بہ پے آئے، سجل تاروں کے...
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش جُدا زمانے سے ایجاد کیوں نہیں کرتے

    غزل جُدا زمانے سے ایجاد کیوں نہیں کرتے سُخن گو اب نیا اِرشاد کیوں نہیں کرتے خیال آئے ہمیں یاد کیوں نہیں کرتے بَہَم کرَم وہ پری زاد کیوں نہیں کرتے تَشفّی دِل کی میسّر کہاں ہے ظالم کو ! یہ اِضطراب، کہ فریاد کیوں نہیں کرتے ہزاروں وسوَسے خود میں ہو یہ سوال لیے ہم اُن سے شکوۂ بیداد کیوں نہیں...
  12. طارق شاہ

    سلیم احمد غمہائے تازہ مانگتے ہیں آسماں سے ہم

    غمہائے تازہ مانگتے ہیں آسماں سے ہم رکھتے ہیں لاگ اپنے دِلِ شادماں سے ہم اُلجھے ہُوئے نہ تھے کَرَم و جَور اِس قَدر لائیں وہ سادگیِ تمنّا کہاں سے ہم اِک رسمِ نالہ پر ہے مَدارِ وَفا ہنوز واقِف نہیں ہیں لذّتِ دردِ نہاں سے ہم ہر درد ، دردِ عِشق نہیں، اے دِلِ خراب! کتنے خَجل ہیں اِس کَرَمِ رائیگاں...
  13. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::۱ِک قیامت سی بپا حالت میں ::::Shafiq-Khalish

    غزل کرب چہرے کا چھپاتے کیسے پُر مُسرّت ہیں جتاتے کیسے ہونٹ بھینچے تھے غَم و رِقَّت نے مسکراہٹ سی سجاتے کیسے بعد مُدّت کی خبرگیری پر اشک آنکھوں کے بچاتے کیسے دوستی میں رہے برباد نہ کم ! دشمنی کرتے نبھاتے کیسے درد و سوزش سے نہ تھا آسودہ دِل تصور سے لُبھاتے کیسے اِک قیامت سی بَپا حالت میں...
  14. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::وفورِ عِشق سے بانہوں میں بھر لیا تھا تمھیں::::Shafiq-Knalish

    غزل وفورِ عِشق سے بانہوں میں بھر لیا تھا تمھیں اگرچہ عُمر سے اِک دوست کر لیا تھا تمھیں رَہے کچھ ایسے تھے حالات، مَیں سمجھ نہ سکا! پِھر اُس پہ، عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا تمھیں کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا مجھے خُدا ہی جانے، جو آشفتہ سر لیا تھا تمھیں اگرچہ مشورے بالکل گراں نہیں...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::شاعِر کے ہر لِکھے کا مَزہ خُوب تر نہ ہو !:::: Shafiq.Khalish

    غزل شاید کہِیں بھی ایسا اِک آئینہ گر نہ ہو اپنے ہُنر سے خود جو ذرا بَہرہ وَر نہ ہو شاعِر کے ہر لِکھے کا مَزہ خُوب تر نہ ہو اپنی سُخن وَرِی میں اگر دِیدَہ وَر نہ ہو جانے کہاں گئی مِری ترغِیبِ زندگی جس کے بِنا حَیات یہ جیسے بَسر نہ ہو سَیر و صَبا کے جَھونکوں کی اُمّید اب نہیں طاری اِک ایسی...
  16. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::عِلم کب مُفت میں ہاتھ آئے خلشؔ::::Shafiq.Khalish

    غزل وَسوَسوں کا اُنھیں غلبہ دینا! چاہیں سوچوں پہ بھی پہرہ دینا وہ سلاسل ہیں، نہ پہرہ دینا چاہے دِل ضُعف کو تمغہ دینا ٹھہری شُہرت سے حَسِینوں کی رَوِش! حُسن کے سِحْر سے دھوکہ دینا خود کو دینے سا تو دُشوار نہیں اُن کا ہر بات پہ طعنہ دینا بُھولے کب ہیں رُخِ مہتاب کا ہم ! اوّل اوّل کا وہ...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::کب گیا آپ سے دھوکہ دینا:::: Shafiq.Khalish

    غزل کب گیا آپ سے دھوکہ دینا سب کو اُمّید کا تحفہ دینا چاند دینا، نہ سِتارہ دینا شَبْ بَہرطَور ہی تِیرَہ دینا سَبقَت اِفْلاس سے قائِم وہ نہیں ہے اَہَم پیار سے پَیسہ دینا در بَدر ہونا وہ کافی ہے ہَمَیں اب کوئی اور نہ نقشہ دینا ماسِوا یار کے، جانے نہ کوئی دلِ بے خوف کو خدشہ دینا کم...
  18. طارق شاہ

    شارقؔ جمال :۔مَیں بھی کتنے کمال تک پُہنچا۔:

    غزل تیرے حُسن و جمال تک پُہنچا میں بھی، کتِنے کمال تک پُہنچا بعد مُدّت کے ذہنِ آشُفتہ ! ایک نازُک خیال تک پُہنچا اے مِرے شَوقِ بے مِثال! مجھے آج، اُس بے مِثال تک پُہنچا اِک زوالِ عرُوج سے ہو کر مَیں عرُوجِ زوال تک پُہنچا ذہْن آزاد ہو گیا میرا جب یَقِیں اِحتمال تک پُہنچا تذکرہ حُسن کے...
  19. طارق شاہ

    جون ایلیا : اِک ہُنر ہے جو کر گیا ہُوں مَیں :

    غزل جون ایلیا اِک ہُنر ہے جو کر گیا ہُوں مَیں سب کے دِل سے اُتر گیا ہُوں مَیں کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کرُوں! سُن رہا ہُوں کہ گھر گیا ہُوں مَیں کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا جیتے جی جب سے مر گیا ہُوں مَیں اب ہے بس اپنا سامنا در پیش ہر کسی سے گزر گیا ہُوں مَیں وہی ناز و ادا وہی غمزے سر بہ...
  20. طارق شاہ

    اقبال عظیم :آپ میری طبیعت سے واقف نہیں، مُجھ کو بے جا تکلّف کی عادت نہیں :

    غزل اقبال عظیم آپ میری طبیعت سے واقف نہیں، مُجھ کو بے جا تکلّف کی عادت نہیں مُجھ کو پُرسِش کی پہلے بھی خواہش نہ تھی، اور پُرسِش کی اب بھی ضرُورت نہیں یُوں سَرِ راہ بھی پُرسِشِ حال کی، اِس زمانے میں فُرصت کسی کو کہاں! آپ سے یہ مُلاقات رسمی سَہِی، اِتنی زحمت بھی کُُچھ کم عِنایت نہیں آپ...
Top